سبھاش چندر بوس اور بی جے پی کے نظریات بالکل مختلف، صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش... رام پنیانی

آج بھلے ہی ہندو فرقہ پرست طاقتیں سبھاش چندر بوس کی شان میں قصیدے پڑھ رہی ہوں، لیکن وہ بوس ہی تھے جنھوں نے فرقہ پرست عناصر کو کانگریس میں داخل ہونے سے روکا تھا۔

سبھاش چندر بوس، تصویر آئی اے این ایس
سبھاش چندر بوس، تصویر آئی اے این ایس
user

رام پنیانی

ہندوستان اس وقت نیتاجی سبھاش چندر بوس کا 125واں یوم پیدائش منا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ نیتاجی کے یوم پیدائش 23 جنوری کو ’پراکرم دیوس‘ کی شکل میں منایا جائے گا اور یوم جمہوریہ کے تہوار کی شروعات اسی تاریخ سے ہوگی۔ انڈیا گیٹ پر نیتاجی کا مجسمہ نصب کرنے کا بھی اعلان ہوا۔

آفیشیل بیانات کے ذریعہ تو نہیں لیکن پھسپھساہٹوں میں یہ بھی مشتہر کیا گیا کہ ملک کو خصوصاً نیتاجی کی کوششوں سے آزادی ملی اور یہ بھی کہ کانگریس نے ان کے ساتھ ناانصافی کی۔ کچھ وقت پہلے اس طرح کی افواہیں بھی اڑائی گئی تھیں کہ نیتاجی کی پنڈت نہرو جاسوسی کرواتے تھے۔ کوشش یہ دکھانے کی تھی کہ گاندھی اور نہرو نے نیتاجی کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔


بی جے پی حکومت نیتاجی کے قصیدے صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے پڑھ رہی ہے۔ بی جے پی بوس کے نظریات اور سیاسی اقدار کی سخت مخالف ہے۔ بوس نے گاندھی جی کے ذریعہ شروع کی گئی عوامی تحریکوں سے متاثر ہو کر کانگریس کی رکنیت اختیار کی تھی۔ کانگریس میں وہ سماجوادی گروہ کے رکن تھے اور نہرو کو اپنا بڑا بھائی تصور کرتے تھے۔ انھوں نے کانگریس چھوڑ کر آزاد ہند فوج کی تشکیل، ملک کو آزاد کرانے کی پالیسی کے تحت کی تھی۔

گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف ایک بڑی تحریک شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کی کانگریس کی سنٹرل ایگزیکٹیو نے پوری طرح حمایت کی۔ بوس نے بھلے ہی اس ایشو کو لے کر کانگریس چھوڑ دی، لیکن گاندھی کے دل میں بوس کے تئیں کوئی غلط جذبہ نہیں تھا۔ بوس نے لکھا ہے کہ سنہ 1944 میں گاندھی جی سے ان کی طویل اور روحانی گفتگو ہوئی تھی جس میں گاندھی جی نے ان سے کہا تھا کہ اگر بوس اپنے طریقوں سے ملک کے لیے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ انھیں مبارکباد دینے والے پہلے شخص ہوں گے۔


اب جب کہ بوس سے جڑے بیشتر دستاویز منظر عام پر آ چکے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ نہرو اور بوس کے درمیان بہت قریبی رشتے تھے اور سماجواد، عوامی فلاح اور ترقیاتی منصوبہ بنانے کے لیے ایک ادارہ کی تشکیل جیسے ایشوز پر وہ یکساں رائے رکھتے تھے۔ سنہ 1938 میں جب بوس کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تب انھوں نے نہرو کی صدارت میں ایک پلاننگ کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔ جب نہرو وزیر اعظم بنے تو اس کے بعد اسی کمیٹی کو پلاننگ کمیشن میں بدل دیا گیا۔ بوس کی پیش قدمی پر تشکیل پلاننگ کمیشن کو مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد تحلیل کر دیا۔

آج بھلے ہی ہندو فرقہ پرست طاقتیں بوس کی شان میں قصیدے پڑھ رہی ہوں، لیکن وہ بوس ہی تھے جنھوں نے فرقہ پرست عناصر کا کانگریس میں داخلہ بند کروایا تھا۔ اس وقت تک مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے اراکین کو کانگریس کا رکن بھی بنے رہنے کی اجازت تھی۔ بوس گاندھی جی کو ملک کے سب سے بڑے عوامی لیڈر کی شکل میں دیکھتے تھے اور انھیں ’راشٹر پتا‘ کہنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ بوس نے آزاد ہند فوج کے لیے گاندھی جی کا آشیرواد بھی مانگا تھا۔ کانگریس کے کئی دیگر لیڈروں سے کہیں زیادہ بوس یہ مانتے تھے کہ ملک میں اقلیتوں کو ان کے واجب حق دیئے جانے چاہئیں۔ آج بی جے پی کے نظریات نے ملک میں جس طرح کا ماحول پیدا کر دیا ہے، اس کے برعکس بوس مسلمانوں کو غیر ملکی نہیں مانتے تھے اور نہ ہی مسلم حکمراں کو جلاد ثابت کرتے تھے۔


بوس نے لکھا تھا ’’یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں جو سیاسی نظام تھا اسے مسلم حکومت کہنا غلط ہوگا۔ جب بھی ہم دہلی کے مغل بادشاہوں کی بات کرتے ہیں، تب ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دونوں ہی معاملوں میں انتظام و انصرام ہندوؤں اور مسلمانوں کے ذریعہ مل کر دیکھا جاتا تھا اور متعدد اہم وزراء اور فوجی افسران ہندو ہوا کرتے تھے۔‘‘ (سبھاش چندر بوس کی کتاب ’انڈین پلگرم‘ سے)

سبھاش چندر بوس نے بہادر شاہ ظفر کے مقبرے پر پہنچ کر 1857 کے انقلاب میں ان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے انھیں اپنا خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ جہاں آج بی جے پی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہے، وہیں بوس نے برطانوی فوج سے پوری ہمت سے مقابلہ کرنے کے لیے ٹیپو سلطان کی بھرپور تعریف کی تھی۔ جو فوجی وردی وہ پہنتے تھے اس کے کندھے پر چھلانگ لگاتے ہوئے شیر کا ٹیپو سلطان کا نشان بھی رہتا تھا۔


بوس دونوں فرقہ پرست نظریات کے سخت ناقد تھے۔ وہ مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کو ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے مانتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس وقت مسٹر جناح صرف یہ سوچ رہے تھے کہ پاکستان سے متعلق ان کے تصور کو کیسے شرمندہ تعبیر کیا جائے۔ کانگریس کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کا خیال ان کے من میں نہیں آیا... مسٹر ساورکر صرف یہ سوچ رہے تھے کہ کس طرح ہندو، برطانوی فوج میں گھس کر فوجی تربیت حاصل کریں۔ ان ملاقاتوں سے میں اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہو گیا کہ نہ تو ہندو مہاسبھا اور نہ ہی مسلم لیگ سے ہم کوئی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ (کتاب ’دی انڈین اسٹرگل‘ سے)

ان کی یہ واضح رائے تھی کہ آزاد ہندوستان میں ہر شخص چاہے وہ کسی بھی مذہب، ذات یا نسل کا کیوں نہ ہو، یکساں مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ وہ ہندو نسل پرستوں کے اس اصول سے بھی متفق نہیں تھے کہ آریہ اس زمین کے اصل باشندے تھے اور اس لیے اس زمین پر ان کا اور صرف ان کا حق ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’تازہ کھدائی میں ملے آثار سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہندوستان پر آریوں کی فتح سے بہت پہلے 3000 قبل مسیح میں ہی اس زمین پر ایک خوشحال تہذیب وسعت پا چکی تھی۔‘‘


اپنے نظریاتی عزائم کے سبب انھوں نے آزاد ہند فوج میں سبھی مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا۔ آئی این اے میں ان کے نزدیکی ساتھیوں میں مسلمان اور عیسائی شامل تھے۔ عابد حسن ان کے اے ڈی سی تھے اور شاہنواز خان اور گرو بخش ڈھلوں آزاد ہند فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اپنی پرانی تنظیم کانگریس کے تئیں احترام کا جذبہ رکھنے کے سبب انھوں نے آزاد ہند فوج کی بٹالیوں کے نام گاندھی، نہرو اور مولانا آزاد کے نام پر رکھے تھے۔ یہ دلچسپ ہے کہ مہاتما گاندھی نے بوس کو ’پرنس امونگ پیٹریٹس‘ (محب وطنوں کے شہنشاہ) کہا تھا۔

ایک قصہ مشہور ہے۔ گاندھی، ان کی بہادری کے تئیں اپنی عقیدت ظاہر کرنے کے لیے آزاد ہند فوج کے قیدیوں سے ملنے پہنچے۔ وہاں انھیں پتہ چلا کہ فوجیوں کو مسلمان چائے اور ہندو چائے دی جاتی ہے۔ یہ اس وقت عام تھا۔ گاندھی جی نے ان سے کہا کہ وہ اس طرح کی چائے پینے سے انکار کر دیں۔ افسروں اور سپاہیوں نے گاندھی جی کی گزارش پر بہت شاندار رد عمل ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ دونوں چایوں کو ملائیں گے اور پھر ایک ساتھ پئیں گے۔ ظاہر ہے کہ مہاتما بہت خوش ہوئے۔


بوس (ہندوستانی نیشنلزم) اور بی جے پی (ہندو نیشنلزم) ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں۔ چونکہ بی جے پی کے نظریہ کا مآخذ یعنی ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس نے جنگ آزادی میں شرکت نہیں کی، اس لیے وہ جنگ آزادی کے ایسے لیڈروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی گاندھی اور نہرو سے کسی بات پر نااتفاقی تھی۔ انہوں نے سردار پٹیل کے ساتھ بھی یہی کیا اور اب اس کے نشانے پر بوس ہیں۔

(یہ ’نوجیون انڈیا ڈاٹ کام‘ پر شائع ہندی مضمون کا اردو ترجمہ ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔