’نفرت ہے اس کو ملک کے امن و امان سے‘

فرقہ پرستوں کے لیے مسئلہ مسلمان ہیں، ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و امان ہے، جس کے ہوتے ہوئے وہ الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔

’نفرت ہے اس کو ملک کے امن و امان سے‘
’نفرت ہے اس کو ملک کے امن و امان سے‘
user

سراج نقوی

ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک صحافتی زندگی میں میرے ساتھی اور دوست رہے مرحوم عتیق مظفرپوری ایک اچھے اور پختہ کلام شاعر بھی تھے۔ عتیق صاحب کا ایک شعر ہے کہ:

ناقوس کی صداؤں سے اور نا اذان سے

نفرت ہے اس کو ملک کے امن و امان سے

اس شعر کا ذکر اتر پردیش کے موجودہ حالات کے تناظر میں کیا گیا، جہاں آج کل فرقہ پرست طاقتوں کو اذان کی آواز بھی گراں گزرنے لگی ہے۔ یہ طاقتیں اسی بہانے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم ڈھنگ سے نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کوششوں میں اتر پردیش حکومت کے ایک وزیر مملکت بھی شامل ہیں۔ حالانکہ اسی اذان کے تعلق سے اکھلیش تیواری نام کے ایک شاعر نے یہ شعر بھی کہا ہے کہ،

خیال آیا ہمیں بھی خدا کی رحمت کا

سنائی جب بھی پڑی ہے اذان پنجرے میں


اب اسے کیا کہیے کہ اکھلیش تیواری کی سماعت کو جو اذان خدا کی رحمت کی یاد دلاتی ہے اور قید سے رہائی کی امید پیدا کرتی ہے، وہی اذان کچھ فرقہ پرست عناصر کی سماعتوں کے لیے باعث زحمت ہے۔ اذان کی آواز سے روز مرہ کے امور میں خلل پڑنے کا تازہ الزام اتر پردیش کے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور آنند سوروپ شکل نے لگایا ہے۔ وزیر موصوف نے چند روز قبل ضلع بلیا کے ڈی ایم کو ایک خط لکھ کر شکایت کی ہے کہ ان کی رہائش گاہ کے پاس صبح چار بجے سے اذان شروع ہو جاتی ہے، اور اس کے بعد لاﺅڈ اسپیکر پر مختلف قسم کی اطلاعات نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے سبب عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا اس معاملے میں مناسب کارروائی کی جائے۔ آنند سروپ شکل کے اس خط پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر نارد رائے نے آنند شُکل کے مطالبے کو فرقہ وارانہ اشتعال پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اذان کی آواز سے طلباء سمیت عام آدمیوں کو کوئی پریشانی نہیں۔ نارد رائے کہتے ہیں کہ شکل کا مطالبہ بلیا کی گنگا-جمنی تہذیب کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔

مسجدوں میں ہونے والی اذانوں کی آوازوں کو پریشانی کا سبب بتانے کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ گزشتہ برس قومی راجدھانی دلّی کی ایک مسجد میں پہنچ کر دلّی پولیس کے دو جوانوں نے کہا تھا کہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نے مساجد میں اذان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پولیس اہلکاروں کا یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دلّی پولیس کو صفائی دینی پڑی تھی کہ پولیس جوانوں کو غلط فہمی ہوئی تھی اور ایل جی و نیشنل گرین ٹریبیونل کی گائڈ لائین کے مطابق ہی مساجد میں اذان دی جا رہی ہے۔ اس سے قبل 2017 میں مشہور گلوکار سونو نگم نے شکایت کی تھی کہ صبح کی اذان سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔ حالانکہ یہی سونو نگم جب دبئی میں ہوتے ہیں تو انھیں اذان کی آواز اچھی لگنے لگتی ہے۔ بہرحال سونو نگم کے اس سلسلے میں کیے گئے ٹوئٹ نے کافی طول پکڑا تھا۔ بعد میں سونو نگم نے ایک اور ٹوئٹ کرکے صفائی دی تھی کہ صرف اذان کے تعلق سے ان کے ٹوئٹ کو ہائی لائٹ کر دیا گیا حالانکہ انھوں نے یہی بات مندر اور گردوارے کے تعلق سے بھی کہی تھی۔


اذان کی آواز پر سماعت کے زحمت زدہ ہونے کی شکایت الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنگیتا سریواستو نے بھی اس ماہ کے شروع میں پریاگ راج کے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر کی تھی۔ وی سی نے کہا تھا کہ اذان کے سبب صوتی آلودگی پھیلتی ہے اور اس سے ان کی نیند میں بھی خلل پڑتا ہے۔ اس معاملے میں مسجد کے ذمہ داروں نے سمجھداری اور صبر و تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے، انتظامیہ کی کسی ممکنہ کارروائی سے پہلے ہی لاؤڈ اسپیکر کے رخ کو موڑنے کے علاوہ آواز کو بھی کافی کم کر دیا اور اس طرح یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن اب بلیا سے تعلق رکھنے والے ریاست کے وزیر مملکت آنند سروپ شکل نے بلیا کے ضلع مجسٹریٹ کو اذان سے خلل پڑنے کی شکایت سے متعلق خط لکھ کر تنازعہ بلکہ کشیدگی پیدا کر دی ہے۔

درحقیقت معاملہ اذان سے روز مرہ کے امور میں خلل پڑنے کا ہے ہی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو بی جے پی حکومتوں سے پہلے بھی اس طرح کی شکایتوں کا ایک پلندہ ہر ریاست کی انتظامیہ کے پاس ہوتا۔ ظاہر ہے ہندوتوا وادیوں کو اقتدار کا نشہ بار بار اس بات کے لیے اکسا رہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو شر اور فتنہ پیدا کرنے والے مسائل میں الجھائے رکھیں اور اس طرح ووٹوں کی صف بندی کرکے اتر پردیش میں آئندہ برس ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں پھر جیت حاصل کرلیں۔ اتر پردیش میں بی جے پی اس وقت کس حالت میں ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ زی نیوز کا ایک سروے جسے بعد میں چینل نے اپنے آقاؤں کی ناراضگی کے ڈر سے ہٹا بھی دیا، اس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست کی 88 فیصد آبادی موجودہ وزیر اعلیٰ کو دوبارہ برسر اقتدار نہیں دیکھنا چاہتی۔


یہ سروے ہٹا دیئے جانے کے بعد ایک اور مقبول عام نیوز پورٹل نے اپنے طور پر جو سروے کیا اس سے بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ریاست کے عوام موجودہ وزیر اعلیٰ کو دوبارہ برسر اقتدار نہیں دیکھنا چاہتے۔ حالانکہ ریاستی حکومت عوام پر ڈورے ڈالنے کے لیے روز نئے اعلانات کر رہی ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ بی جے پی قیادت کے وعدوں کی حقیقت کیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے پاس جو سب سے زیادہ آزمودہ اور کامیاب ہتھیار ہے، یعنی عوام کو مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کرنا، اسی کے استعمال کے کوششیں شدّت سے شروع ہو گئی ہیں۔ ریاستی وزیر شکل کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

بات صرف مسجد میں اذان دینے سے متعلق شکایت کی ہی نہیں ہے، اس کے بعد آنند سوروپ شکل نے ایک نیا شوشہ چھوڑ کر ماحول کو ہندو-مسلم کے نام پر کشیدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شکل فرماتے ہیں کہ تین طلاق کی طرز پر ہی پورے ملک کی مسلم خواتین کو برقع سے بھی نجات دلائی جائیگی اور اس کے لیے مسلم خواتین پر کسی طرح کا دباؤ نہیں ہوگا۔ حالانکہ مسلم خواتین کے ان خود ساختہ نجات دہندوں اور ان کے آقاﺅں کو بھی علم ہے کہ تین طلاق پر بنا قانون آج کتنا استعمال ہو رہا ہے۔ درحقیقت بات مسلم خواتین کو نجات دلانے کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو کسی نہ کسی بہانے ختم کرنے کی کوشش ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں اس کا ثبوت ہیں۔


وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ بیشتر مسلم ممالک میں برقع کے استعمال پر پابندی ہے، اور یہ غیر انسانی عمل اور غلط رسم ہے۔ آنند سروپ شکل کو شائد یہ علم نہیں کہ ہندوستان کے دیہاتوں میں آج بھی ہندو عورتیں غیر مردں کے سامنے لمبا گھونگٹ ڈالے رہتی ہیں جو پردے کی ہی ایک قسم ہے۔ آنند سروپ مسلم ممالک کے تعلق سے کیے گئے مذکورہ دعوے کے ثبوت میں اگر ان ممالک کی فہرست بھی پیش کر دیتے تو بہتر ہوتا۔ حالانکہ ایسے معاملوں میں مسلمان کسی مسلم ملک نہیں بلکہ اسلامی شعار کے پابند ہیں۔ دراصل فرقہ پرست طاتوں کے لیے مسئلہ اذان یا مسلم خواتین کا برقع نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ اس کا ثبوت غازی آباد کے ایک مندر میں مسلم بچّے کے پانی پینے پر اس کی پٹائی کیے جانے سے ملتا ہے۔ فرقہ پرست بچّے کی پٹائی کو درست قرار دے رہے ہیں۔ سوامی نرسنگھانند سرسوتی نے تو ایک رپورٹر کے سوال پر صاف لفظوں میں کہا کہ مندر میں پانی پینے کوئی مسلمان نہیں آسکتا، حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ پانی پینے عیسائی آسکتا ہے، جین آسکتا ہے، یہودی آسکتا ہے اور بودھ آسکتا ہے، اور ہم سب کو بلاتے بھی ہیں، لیکن مسلمان نہیں چاہیے۔ یعنی فرقہ پرستوں کے لیے مسئلہ مسلمان ہیں، ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و امان ہے، جس کے ہوتے ہوئے وہ الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔