’کون پرسان حال ہے میرا‘...سراج نقوی

حال ہی میں سورت کی یک مقامی عدالت نے 127 مسلم ملزمان کو دہشت گردی، ملک سے بغاوت سمیت دیگر سنگین الزامات سے بری کیا ہے، حکمرانوں نے ایسے معاملوں میں معاوضہ دیکر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی

عدالت، علامتی تصویر
عدالت، علامتی تصویر
user

سراج نقوی

امروہہ سے تعلق رکھنے والے کراچی کے ایک بزرگ شاعر ساقیؔ امروہوی کی ایک غزل سوشل میڈیا پر گذشتہ چند برسوں میں کافی وائرل ہوئی ہے جس کا مطلع ہے،

کون پرسان حال ہے میرا

زندہ رہنا کمال ہے میرا

سپریم کورٹ میں داخل کی گئی اتر پردیش بی جے پی لیڈر کی ایک عرضی سے متعلق خبر پرھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات کے تناظر میں مذکورہ مطلع یاد آ گیا۔ اس لیے کہ آج ہندوستان میں مسلمان بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکار ہیں۔دراصل بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کرتے ہوئے حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ سے بری کیے گئے عصمت دری کے ایک ملزم وشنو تواری کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ مرکز اور تمام ریاستوں کی حکومتوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ طویل مدت تک جیل میں رہے اور بالآخر بے قصور ثابت ہونے والے ملزمان کے معاملے میں ایک گائڈ لائن تیار کریں، اور اس سلسلے میں لاء کمیشن کی رپورٹ کو بھی نافذ کریں، تاکہ بے قصور ملزمان کو ہوئے ہر طرح کے نقصان کا معاوضہ انھیں دیا جا سکے۔


دراصل الہ آباد ہائی کورٹ نے 20 سال تک جیل کی سزا کاٹ چکے ایک ملزم وشنو تواری کو رواں سال کی 28 جنوری کو سنائے گئے فیصلے میں بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں لکھی گئی ایف آئی آر کا سبب زمین کے ایک تنازعہ کو پایا۔ اس تنازعہ کے سبب وشنو تواری پر عصمت دری کا الزام لگا کر اسے جیل بھیج دیا گیا۔ نچلی عدالت نے بھی اسے قصوروار قرار دیا۔ 12 ستمبر سن 2000 کو گرفتار کیے گئے وشنو تواری کوالہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے کے 20 سال جیل میں گذارنے پڑے۔ظاہر ہے اس معاملے میں بری ہو جانے کے باوجود وشنو کے وہ 20 سال جو بے گناہ ہونے کے باوجود برباد ہو گئے ان کا کوئی معاوضہ نہ تو زمینی تنازعہ کے فریق دوئم سے دلایا گیا اور نہ وشنو کے خلاف فوجداری کا مقدمہ لڑنے والی ریاست اتر پردیش یا پولیس نے ہی وشنو کو کوئی معاوضہ دیا۔ یعنی حقیقت کی سطح پر دیکھیں تو وشنو جب بے قصور ثابت ہوا اس وقت تک اس کی زندگی کے 20 قیمتی سال ہمارے نظام عدل کی خامیوں کی نذر ہو چکے تھے، لیکن اس کا ازالہ کرنے کی نہ تو ریاست کی طرف سے کوشش کی گئی اور نہ ہی وشنو کو فرضی معاملے میں پھنسانے والوں کو اسے ہوئے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ اس سلسلے میں نہ تو مرکزی سطح پر اور نہ ریاستی سطح پر کوئی ایسا قانون یا ضابطہ موجود ہے کہ جس کی رو سے بے قصور ثابت ہونے والے ملزمان کے نقصان کا ازلہ کیا جا سکے۔ ایسی صورت میں عدالت سے انصاف پانے والا ملزم بھی درحیقت انصاف سے محروم ہی رہ جاتا ہے۔ جبکہ اسے فرضی طریقے سے پھنسانے والے اس بات پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ عدالتی فیصلہ خواہ کچھ بھی آیا ہو لیکن وہ اپنے مخالف کو ستانے میں کامیاب ہو گئے۔

مفاد عامہ کی مذکورہ عرضی میں عرضی گذار نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرے کیونکہ اس معاملے میں مرکز اور ریاستی حکومتوں کی بے عملی کے سبب آئین کے آرٹیکل 21 میں شہریوں کو حاصل زندگی ،آزادی اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔عرضی گزار وکیل کو کون بتائے کہ دہشت گردی سمیت مخلف الزامات میں پھنسائے جانے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعدا د بھی حکومت کی اس بے عملی کے نتیجے میں طویل عرصے تک جیلوں میں گزارکر بعد میں باعزت بری ہونے کا بھیانک مذاق ،نظام انصاف کی اس خامی کے سبب جھیلنے کے لیے مجبور ہے اور کوئی اس معاملے میں اس کا پرسان حال نہیں ہے۔بلکہ اس کے برعکس نظام انصاف کی اس خامی کا شکار کہیں کہیں تو اسے جان بوجھ کر اسی لیے بنایا جا رہا ہے کہ جب تک عدالتی فیصلہ آیئگا اس وقت تک ملزم کی زندگی کے بیش قیمتی سال جیل میں برباد ہو چکے ہونگے۔


مذکورہ عرضی میں مسلمانوں کے کسی معاملے کا حوالہ بھلے ہی نہ ہو، لیکن بے قصور افراد کو جیل بھیجنے کے معاملے میں حکومت کے رویے کو صاف گوئی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا ہے۔عرضی گذار نے کہا ہے کہ

’30 نومبر 2017 کو دلّی ہائی کورٹ نے غلط طور پر پھنسائے گئے ایک ملزم کو راحت دینے و باز آبادکاری کے معاملے میں لاء کمیشن کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ اس سلسلے میں تفصیل سے غور و خوض کرے۔ کمیشن نے 30 اگست 2018 کو اپنی رپورٹ بھی سونپ دی تھی لیکن مرکز نے ان سفارشات کو نافذ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں آٹھایا ۔‘ سوال یہ ہے کہ مر کز کی طرف سے اس معاملے میں برتی جانے والی لاپروائی محض اتفاقی ہے یا اس کے پس پشت کوئی خاص مقصد ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ نظام انصاف کی اس خامی کے شکار ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق ایک خاص فرقے یا طبقے سے ہے۔عرضی گذار نے بھی اپنی عرضی میں یہ الزام لگایا ہے کہ کوئی موثر آئینی یا قانونی نظام نہ ہونے کے سبب جھوٹے مقدمے ،غلط استغاثہ اور بے گناہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے کے معاملوں میں بہت اضافہ ہوا ہے،اور یہ ملک کے نظام انصاف پر ایک داغ ہے۔

اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی ریاستی حکومت کے خلاف تلخ تبصرہ کرتے ہوئے گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں دیے گئے فیصلے میں سوال کیا تھا کہ حکومت نے 14 سال بعد رہا کرنے کے اپنے اختیار کا استعمال کیوں نہیں کیا۔ ہائی کورٹ نے ریاستی سکریٹری برائے قانون کو یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ تمام ضلع مجسٹریٹوں سے کہیں کہ 10 سال سے 14 سال تک سزا بھگت چکے قیدیوں کی رہائی کی سفارش وہ ریاستی حکومت کو بھیجیں۔ ریاستی حکومت پر عدالت کی اس ہدایت کا کتنا اثر ہوا یہ تو وہی جانے لیکن ایک بات تو بہرحال واضح ہے کہ ریاستی حکومت ایسے معاملوں میں کوئی فعالیت بھلے ہی نہ دکھاتی ہو لیکن مختلف معاملوں کے مخصوص ملزمان کو قانون کی حدوں سے آگے جاتے ہوئے ان کے فرضی انکائونٹر کرنے، ان کی املاک کو بغیر کسی عدالتی حکم کے ضبط کرنے کے معاملے میں وہ حد درجہ فعال ہے۔ ایک ہندی روز نامے نے 12 مارچ کی اپنی اشاعت میں یوگی حکومت کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے بہت اہمیت کے ساتھ اس خبر کو شائع کیا ہے کہ حکومت نے ریاست کے مافیا کے خلاف سخت موقف اپناتے ہوئے گذشتہ چار سال میں ان کی تقریباً 950 کروڑ کی املاک کو ضبط کرنے کا قابل تعریف کارنامہ انجام دیا۔اب یہ سوال کرنے کی کسی میں جرات نہیں کہ املاک کی قرقی یا اسے ضبط کرنے کی یہ کارروائی عدالتی حکم پر ہوئی یا حکومت نے ججوں کے فیصلے کی بجائے یہ کام اپنے طور پر کیا۔ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں کئی ایسے قوانین مرکز یا کئی ریاستی حکومتوں کے ذریعہ بنائے گئے ہیں کہ جن میں عدلیہ کا رول محدود ہو گیا ہے اور بہت سے معاملوں میںان کا ضمانت دینے کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ تجارت کے شعبے کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کی وکالت کرنے والے حکمراں شاید عدالت کے شعبے کو حکومت کے زیر نگیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن سب سے زیادہ باعث تشویش بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں ایسے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد پیدا ہو گئی ہے کہ جو اذیت پسندی کی نفسیاتی بیمار کی شکار ہے اور بدقسمتی سے اس نفسیاتی بیماری کا شکار دلت اور کمزور طبقے کو بننا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں سورت کی یک مقامی عدالت نے 127 مسلم ملزمان کو دہشت گردی، ملک سے بغاوت سمیت دیگر سنگین الزامات سے بری کیا ہے۔ ایسے معاملوں کی فہرست کافی طویل ہے، لیکن ان میں سے کسی کو کوئی معاوضہ دیکر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش حکمرانوں نے نہیں کی، اس کے پس پشت کسی بد نیتی یا سازش کا دخل ہے یہ کہنا مشکل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔