گجرات اسمبلی انتخاب: شکست کے خوف سے پی ایم مودی خود کو بے چارہ ظاہر کرنے میں مصروف!

گجرات انتخاب میں بی جے پی پھنسی ہوئی محسوس ہو رہی ہے، اس بار اس کا مقابلہ خاموش دیہی ووٹ بینک پر توجہ مرکوز کیے کانگریس اور پانی پی پی کر کوسنے والی عآپ سے ہے۔

پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس
پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس
user

آر کے مشرا

ترقی کے نام نہاد سفیر جب یہ کہتے ہوئے رونا دھونا مچانے لگیں کہ انھیں اس-اس طریقے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تو سوچنے پر مجبور ضرور ہونا چاہیے کہ آخر ماجرا کیا ہے! گجرات انتخاب میں چوتھائی صدی سے راج کر رہی بی جے پی کی تشہیری مہم کے مرکز وزیر اعظم نریندر مودی جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہاں پارٹی کے پیروں تلے زمین کھسک چکی ہے۔

ریاست میں دوسری سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے اس بار الگ ہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ نہ تو وہ بی جے پی کے تام جھام کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور نہ ہی عآپ کی تلخ زبان کا۔ وہ کاموشی کے ساتھ اپنے ’مشن‘ میں مصروف ہے۔ کانگریس کو پتہ ہے کہ بی جے پی کا شہری علاقوں میں اثر ہے اور کم و بیش عام آدمی پارٹی بھی شہری مزاج کی پارٹی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنے قلعہ پر توجہ دی جائے۔ اسی پالیسی کے تحت کانگریس گاؤں پر دھیان دے رہی ہے اور چھوٹی چھوٹی میٹنگیں کر کے اپنی حالت مزید مضبوط کر رہی ہے۔


اسی وجہ سے بی جے پی کے لیے اس بار ’جنگ‘ کچھ مختلف ہے۔ اندر-باہر سے بے شمار ’پریشانیوں‘ نے اسے گھیر رکھا ہے اور وزیر اعظم مودی کے بھاگ بھاگ کر گجرات پہنچنے اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی ریاست میں ہی ڈیر جما لینے کے بعد بھی بی جے پی میں ایک طرح کی بے چینی ہے جسے بڑے آرام سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کو ریاست کے اقتدار میں بیٹھے چوتھائی صدی ہو گئی ہے اور اسے زبردست حکومت مخالف لہر کا سامنا بھی ہے۔

انہی اسباب سے حالیہ انتخابی تشہیر میں بی جے پی لیڈروں کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے سے ہیں۔ وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں۔ مودی اپنے آپ کو بے چارہ بتاتے ہیں۔ سریندر نگر میں ایک انتخابی ریلی میں مودی نے کہا کہ ’’کانگریس لیڈر مودی کو اس کی اوقات دکھانا چاہتے ہیں۔ لیکن میں تو صرف ایک نوکر ہوں جس کی کوئی اوقات نہیں۔ اس کے پہلے بھی ان لوگوں نے مجھے ’نیچ آدمی‘، ’موت کا سوداگر‘ اور ’نالی کا کیڑا‘ کہا۔ لیکن میں صرف ترقی کی بات کرتا ہوں۔ وہ شاہی لوگ ہیں، میں تو صرف ایک معمولی سا نوکر ہوں۔‘‘


دوسری طرف امت شاہ ماضی کو کھینچ کر حال میں لے آتے ہیں۔ حال ہی میں احمد آباد میں کہا کہ ’’کانگریس نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو بے عزت کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا۔ نرمدا پروجیکٹ کو کانگریس حکومتوں نے قصداً لٹکائے رکھا کیونکہ اس سے سردار کا نام جڑا تھا۔‘‘ یہ سب بولتے ہوئے امت شاہ بڑی ہی سہولت کے ساتھ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جس کانگریس حکومت نے آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی، اس کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل ہی تھے۔

انتخابی فائدے کے لیے تاریخ کو توڑنے مروڑنے کے ساتھ امت شاہ فرقہ واریت سے بھرے بیان دینے سے بھی نہیں جھجکتے۔ کھمباٹ اور احمد آباد کے سابرمتی میں وہ ہنکار بھرتے ہیں کہ کیا کانگریس فرقہ واریت پھیلانے والوں کو ڈھیر کر سکتی ہے؟ اس کے علاوہ وہ بیٹ دوارکا میں بڑے پیمانے پر چلی توڑ پھوڑ مہم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہم نے سبھی فرضی مزاروں کو گرا دیا، ٹھیک کیا یا غلط کیا؟‘‘


حال ہی میں وزیر اعظم مودی جنوبی گجرات کے ولساڈ میں آزمایا ہوا نسختہ اپناتے ہوئے ’گجرات مخالف‘ گروہ کے خلاف آگاہ کرتے ہیں کہ یہ لوگ جھوٹ پھیلاتے ہیں، نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہیں اور ریاست کو بدنام کرتے ہیں۔ بغیر کسی آدمی یا پارٹی کا تذکرہ کیے وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہیں، ’یہ عنصر وِکاس کی گھڑی کی سوئی کو واپس گھمانا چاہتے ہیں‘۔

دو دن بعد، بی جے پی لیڈر اور ریاستی اسمبلی کے نائب سربراہ جیٹھا بھارواڑ نے پارٹی سربراہ جے پی نڈا کی موجودگی میں کہا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو بے عزت کر کے واپس دہلی بھیج دیا جائے گا۔ یہ بھی کہا کہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ کو افغانستان یا پاکستان میں رہنا چاہیے۔ وہیں بی جے پی کے ریاستی سربراہ سی آر پاٹل کیجریوال کو ’مہا ٹھگ‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔


بی جے پی نے اپنے مرکزی وزراء سے لے کر بی جے پی حکمراں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور تمام لیڈروں کو گجرات کے انتخاب میں میدان میں اتار رکھا ہے۔ ان کے پاس مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت ہیں جو گجرات سے ابھر رہی نام نہاد ترقی کی سیاست پر احمد آباد میں لوگوں کو ’گیان‘ دیتے ہیں، کانگریس کا ہاتھ چھوڑ کر آئے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما ہیں جو بتاتے نہیں تھکتے کہ کیسے مودی کی قیادت میں ہندوستان نے معیشت کے معاملے میں برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اُدھر ہماچل کے وزیر اعلیٰ جئے رام ٹھاکر لوگوں کو بھروسہ دلاتے پھر رہے ہیں کہ یہ انتخاب بی جے پی کے حق میں جھکا ہوا ہے۔ پارٹی چیف جے پی نڈا کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے پیچھے بھارت توڑو ایجنڈے کی بات کرتے ہیں، تو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس اسے اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش بتاتے ہیں۔

گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپندر پٹیل کانگریس پر اقلیتوں کو خوش کرنے کا الزام گلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی کی 27 سالہ حکومت نے احمد آباد کو رہنے لائق اور پیارا بنایا ہے۔‘‘ وہ شاید یہ تذکرہ کرنا بھول گئے کہ بی جے پی کے کنٹرول والے احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے 4 اگست سے اب تک دو بار میں مجموعی طور پر 700 کروڑ روپے کا قرض لیا تاکہ کارپوریشن کے روزانہ کے خرچے پورے ہو سکیں اور ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی ہو سکے۔ ایسی خستہ حالت کے باوجود بلدیہ نے گزشتہ مہینے 2000 کروڑ روپے کے پروجیکٹ کو منظوری دی۔ ظاہر ہے منشا انتخابات میں فائدہ اٹھانے کی تھی۔


وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح ریاستی سیاست کی کمان سیدھے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے، اس کے بعد بھی اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں میں آئی لگاتار کمی نے بی جے پی کو پریشان کر رکھا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ گجرات کے انتخابات کا وزن تنہا اپنے کندھوں پر اٹھانے والے وزیر اعظم مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے مودی اور شاہ ’انتخابی موڈ‘ میں ہی رہے ہیں۔ ان لیڈروں میں سے جب بھی کوئی گجرات آیا، کئی منصوبوں کی سنگ بنیاد رکھی گئی یا پھر افتتاح کیا گیا۔ اس دوران موٹے طور پر تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے پر مبنی مجموعی اعلانات کر دیے گئے۔

جب تک انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ نہیں ہوا تھا، گجرات میں مودی-شاہ کی ریلیوں میں عام آدمی کو جمع کرنے کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ کیبسوں کا استعمال کیا جا رہا تھا، اور انھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ اس سے عام لوگوں کو آنے جانے میں دقت ہوتی ہے کیونکہ یہ بسیں مختلف روٹ سے ہٹا کر اس طرح کے کام میں لگائی جاتی ہیں۔ اس لیے جب تک انتخاب کا اعلان نہیں ہوا تھا، ان کی ریلیوں میں بھیڑ دکھائی دیتی رہی۔ لیکن انتخاب کے اعلان کے بعد یہ سبھی سہولتیں جاتی رہیں اور اسی طرح ان کی ریلیوں میں جمع ہونے والی بھیڑ بھی کم ہو گئی۔ حتیٰ کہ خالی کرسیوں کا معاملہ پارٹی میں موضوعِ بحث بھی بنا۔


اس انتخاب میں ’قبائلی‘ بھی ایک اہم ایشو بن گیا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا سے دو دن کا بریک لیتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے گجرات میں دو انتخابی اجلاس کو خطاب کیا۔ انھوں نے اس موقع پر کہا کہ ’’کانگریس کا ماننا ہے قبائلی زمین کے پہلے مالک ہیں، جب کہ بی جے پی انھیں وَن واسی کہتی ہے۔‘‘ گجرات کے سریندر نگر میں مودی نے اسی دن ووٹروں سے کانگریس کو سزا دینے کے لیے کہا کیونکہ نرمدا مخالف لیڈر میدھا پاٹکر ان کی یاترا میں شامل ہوئی تھیں۔ نڈا نے کہا کہ کانگریس لیڈر گجرات مخالف عناصر کے ساتھ چل رہے ہیں۔ یہاں اسے بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی نے 2002 میں سابرمتی آشرم میں منعقد ایک امن میٹنگ میں نرمدا بچاؤ آندولن (این بی اے) کارکنان پر حملے کے ملزم پارٹی کے دو لیڈروں کو انتخاب میں ٹکٹ دیا ہے۔ امت پوپٹ لال شاہ کو ایلس برج انتخابی حلقہ سے جبکہ امت ٹھاکر کو ویجل پور سے انتخابی میدان میں اتارا گیا ہے۔ یہ دونوں سیٹیں احمد آباد میں ہیں۔ ابھی ان دونوں لیڈروں پر مقدمہ چل رہا ہے۔ ٹھاکر، جو گجرات کے بی جے پی یوتھ مورچہ کے سکریٹری تھے، بعد میں اس کے قومی صدر بنے۔ پاٹکر مار پیٹ معاملے کا ایک دیگر ملزم جو مقدمے کا سامنا کر رہا ہے، وہ ہیں وی کے سکسینہ جنھیں بعد میں دہلی کا لیفٹیننٹ گورنر بنایا گیا۔

اس بار بی جے پی کا سکون اس لیے بھی حرام ہو گیا ہے کیونکہ کانگریس نے اس کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کانگریس جس پالیسی پر انتخاب لڑ رہی ہے، اس نے بی جے پی کو حیران کر دیا ہے۔ اس انتخاب میں کانگریس نے نہ تو بی جے پی کی تڑک-بھڑک کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی عام آدمی پارٹی کی تلخ زبان کا۔ کانگریس ترجمان ڈاکٹر منیش دوشی کہتے بھی ہیں کہ ہم نے ان دونوں کی پالیسی سے بے پروا زمین پر کام کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت ہم لوگوں سے نجی طور پر رابطہ کر رہے ہیں۔


کہا جا سکتا ہے کہ یہ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے پیچھے کا جذبہ ہی ہے جو گجرات میں کانگریس کی تشہیری مہم میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس نے نہرو-گاندھی فیملی کے خلاف بی جے پی کے کسی بھی اکسانے والے بیان کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں کی، نہ ہی وہ عام آدمی پارٹی کے شعلہ انگیز طریقہ کا مقابلہ کرتی ہوئی دکھائی دی۔ مقابلے میں قسمت آزما رہیں دوسری پارٹیوں کی پالیسی سے بے پروا کانگریس گھر گھر لوگوں سے ملنے اور ’کھٹیا میٹنگوں‘ پر اپنی پوری توجہ دے رہی ہے۔

کانگریس کی اس پالیسی سے بی جے پی پریشان بھی ہے۔ ساتھ ہی خود وزیر اعظم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ کانگریس کی تشہیری مہم گھر-گھر چل رہی ہے اور اس لیے بی جے پی حامیوں کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ یہ انتخاب پہلے سے کافی مختلف ہے، اسے لڑنے کے ہتھیار الگ ہیں اور کانگریس کی شکل بھی الگ ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔