بجنور سے گراؤنڈ رپورٹ: بدلاؤ کے لیے عوام بے قرار، لیکن امیدواروں کے غلط انتخاب سے ناراض

49 فیصد مسلم اور 27 فیصد دلت آبادی کے ساتھ حکومت بدلنے کو عوام بے قرار ہیں، لیکن بجنور ضلع میں امیدواروں کے خراب انتخاب نے اپوزیشن کی یقینی جیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مغربی اتر پردیش کے سب سے اہم اور بڑے اضلاع میں سے ایک بجنور ضلع میں 8 اسمبلی سیٹ ہے۔ 49 فیصد مسلم اور 27 فیصد دلت آبادی کے ساتھ حکومت بدلنے کو بے قرار اس ضلع میں امیدواروں کے خراب انتخاب نے اپوزیشن کی جیت کے امکانات کو کمزور کر دیا ہے۔ عوام کا کنفیوژن یہاں برسراقتدار طبقہ کے لیے آکسیجن بن گیا ہے۔ بجنور میں 14 فوری کو ووٹنگ ہے۔ بجنور میں روزگار اور مہنگائی سب سے بڑا ایشو ہے۔ کسانوں کا غصہ بھی حکومت کے تئیں اس بار کے انتخاب میں گھی ڈالنے کا کام کرے گا۔

بجنور سے ہریدوار جانے والی سڑک پر منڈاولی کے قریب رمضانی چاچا 64 سال کی عمر میں بھی شادیوں میں باجا بجا کر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ خوش مزاج رمضان کئی بات بے حد کام کی کرتے ہیں۔ رمضانی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ذات اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ ہم نے قابل لیڈروں کو منتخب کرنا بند کر دیا ہے، اس لیے ماحول بھی خراب ہو گیا ہے۔ لیڈر کو سبھی خوبیوں و خامیوں کی بنیاد پر ٹھوک بجا کر چننا چاہیے۔ ایک بار انتخاب ہونے کے بعد ہم یہ سوچتے ضرور ہیں، لیکن انتخاب کے وقت ہماری عقل پر الو بیٹھ جاتا ہے۔ رمضانی نجیب آباد اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ ان کے لوگوں کا رجحان جس امیدوار کی طرف ہے وہ اس سے پہلے دو بار رکن اسمبلی رہ چکا ہے۔ اس بار وہ عوام سے دور رہے لیکن برسراقتدار طبقہ کی کارگزاریوں سے ناراض لوگوں کے لیے وہی واحد متبادل ہے۔ رمضانی حالانکہ حکومت بدلنے کے لیے بے قرار ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ حکومت کا رویہ تفریق والا رہا ہے، اس لیے اسے بے دخل کیا جانا چاہیے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

نجیب آباد اسمبلی سے دو بار منتخب ہوئے تسلیم احمد اس بار بھی سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مقامی لوگوں میں انھیں لے کر ناراضگی ہے، لیکن حکومت بدلنے کو بے قرار لوگ بہوجن سماج پارٹی سے شہنواز خلیل اور کانگریس کے سلیم انصاری سے زیادہ ان کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ نجیب آباد بجنور کی سب سے اہم اسمبلی سیٹوں میں سے ہے۔ یہاں مسلم ووٹر نتیجہ خیز کردار میں ہیں۔ یہاں کے قصبہ ساہن پور کے عمران علی بتاتے ہیں کہ اس اسمبلی سیٹ سے ساہن پور اسٹیٹ کے راج فیملی سے تعلق رکھنے والے کنور بھارتیندو سنگھ بی جے پی سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ کنور بھارتیندو قبل میں رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔ اس بار اتحاد نے ایک ایسے امیدوار کو انتخاب لڑوا دیا ہے جو لوگوں کی ناراضگی دور نہیں کر پا رہا ہے۔ اس لیے یہاں تین مسلم امیدواروں کے درمیان پھنسی یہ سیٹ اس بار ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

سماجوادی پارٹی نے یہاں تسلیم احمد کو امیدوار بنایا ہے۔ وہ گزشتہ بار بی ایس پی سے اور اس بار سماجوادی پارٹی سے رکن اسمبلی بنے، اب وہ سماجوادی پارٹی سے رکن اسمبلی ہیں، تینوں امیدواروں کے درمیان ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلم ووٹر کنفیوز ہو گئے ہیں۔ اس میں بنٹوارا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ نجیب آباد کے ابرار انصاری بتاتے ہیں کہ امیدوار کے سلیکشن سے مقامی لوگوں میں مایوسی ہے۔ اس سے ووٹنگ فیصد پر بھی فرق پڑے گا۔ سبل پور گاؤں کے نوجوان وجے کشیپ کہتے ہیں کہ وہ اس کو ووٹ دیں گے جو ان کے گاؤں مین سڑک سے جوڑے گا۔ ہمارے گاؤں کے سبھی راستے خراب ہیں۔ روزگار نہیں ہے اور مہنگائی بھی بہت ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

بجنور کی افضل گڑھ، نور پور اور دھام پور سیٹ پر بھی سہ رخی مقابلے کی صورت بنتی نظر آ رہی ہے۔ تینوں اسمبلی سیٹوں پر امیدواروں کے سلیکشن کو لے کر ناراضگی ہے۔ جس طرح کے لیڈروں کو اپوزیشن نے ان سیٹوں پر ٹکٹ دیے ہیں، اس سے بی جے پی بہت خوش نظر آ رہی ہے۔ بجنور شہر سیٹ پر تو سب سے زیادہ حالت خستہ ہے۔ یہاں سماجوادی پارٹی اور آر ایل ڈی دونوں نے اپنا امیدوار اتار دیا تھا، حالانکہ بعد میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار رمیش تومر نے آر ایل ڈی امیدوار ڈاکٹر نیرج کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ بجنور شہر کی ناہید فاطمہ بتاتی ہیں کہ بجنور میں اپوزیشن پکی پکائی ہنڈیا گرا رہا ہے۔ ٹکٹ تقسیم کی ناسمجھی سے اپوزیشن کا کھیل بگڑ گیا ہے۔ خاص کر بی ایس پی امیدوار یہاں اتحاد کا ذائقہ بگاڑ رہے ہیں۔ مسلم اکثریتی اسمبلی سیٹ پر بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی دونوں مسلم امیدوار لڑا رہے ہیں۔ بجنور ضلع میں دلت بڑی تعداد میں ہیں۔ یہاں مایاوتی، میرا کمار اور رام ولاس پاسوان انتخاب لڑ چکے ہیں۔ انتخابی سہ رخی ہوتا معلوم پڑ رہا ہے۔ نورپور کے آصف نور کہتے ہیں کہ امیدواروں کے انتخاب سے سبھی مطمئن نہیں ہو سکتے، ہمیں حکومت بدلنی ہے کیونکہ کسان بہت پریشان ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

بجنور شہر سے بی ایس پی نے سماجوادی پارٹی سے سابق رکن اسمبلی رچیویرا کو انتخاب لڑانے کا اعلان کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی اتحاد کی طرف سے یہاں آر ایل ڈی کے ڈاکٹر نیرج امیدوار ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی موجودہ رکن اسمبلی سوچی چودھری کو انتخاب لڑا رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اور بجنور باشندہ دانش صدیقی بتاتے ہیں کہ لڑائی سہ رخی ہے اور مقابلہ دلچسپ رہنے والا ہے۔ حکومت سے ناراض اپوزیشن دو حصوں میں منقسم نظر آ رہا ہے۔ ابھی یہ کہنا جلدبازی ہے کہ کس کا پلڑا بھاری ہوگا۔ افضل گڑھ میں بھی مقابلہ سہ رخی ہی ہے۔ یہاں بی جے پی کے موجودہ رکن اسمبلی اور مراد آباد کے سابق رکن پارلیمنٹ سرویش سنگھ کے بیٹے بی ایس پی کے محمد غازی سے مقابلہ کریں گے۔ دھام پور میں سماجوادی پارٹی اتحاد نے اپنے پرانے لیڈر اور وزیر مول چند چوہان کا ٹکٹ کاٹ دیا تھا۔ مول چند چوہان اب بی ایس پی امیدوار ہیں۔ چاندپور سے سماجوادی پارٹی نے سوامی اومویش اور بی ایس پی نے شکیل ہاشمی کو کھڑا کیا ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

خاص بات یہ ہے کہ اکثریت کی ناراضگی کا سامنا کر رہی بی جے پی یہاں سہ رخی مقابلہ کی وجہ سے بہتر حالت میں آ گئی ہے۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ وہ محفوظ اسمبلی سیٹوں پر سب سے کمزور ہے۔ جیسے نہٹور اور نگینہ پر بی جے پی بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ نگیجہ پر سماجوادی پارٹی سابق وزیر منوج پارس کو انتخاب لڑا رہی ہے جب کہ نہٹور پر آر ایل ڈی نے منشی رام پال کو لڑانے کا اعلان کیا ہے۔ نہٹور کے زاہد انصاری کہتے ہیں کہ یہاں بی جے پی اس لیے کمزور نظر آ رہی ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں اور دلتوں میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ دونوں سیٹوں پر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تو مسلمان ہی ہیں۔ اس کے علاوہ نہٹور میں جاٹوں کی بھی اچھی تعداد ہے۔ نگینہ کے ویپن کمار بھی یہی بات کہتے ہیں کہ منوج پارس یہاں سے ابھی بھی رکن اسمبلی ہیں اور اب فارمولہ مزید مضبوط ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

واضح رہے کہ بجنور میں 8 اسمبلی سیٹ ہیں۔ ان میں سے 5 پر اس وقت بی جے پی کا قبضہ ہے۔ ضلع مسلم اکثریت ہے۔ بجنور شہر کے محلہ مردگان کے زبیر خان بتاتے ہیں کہ نئے فارمولہ سے جو آثار دکھائی دیتے ہیں دراصل وہ وقت کے ساتھ بدل جائے گا۔ گزشتہ دو دنوں سے وہ بدلاؤ دکھائی بھی دے رہا ہے۔ حکومت سے ناراض سماج نہیں بنٹے گا، وہ حکومت کو بدلنے کے لیے بے قرار ہے۔ بی ایس پی نے ضرور 4 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے لیکن کسانوں کی ناراضگی حکومت کو بہت بھاری پڑنے والی ہے۔ بجنور میں بھی کسان تحریک کا بڑا اثر ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

چاندپور کے سریندر چودھری اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کاغذ کے ریاضی سے الگ زمینی ریاضی ہے۔ سریندر کہتے ہیں کہ اس حکومت کے خلاف بجنور کے کسانوں سے زیادہ کسی نے جدوجہد نہیں کی ہے۔ بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت کے جب آنسو بہے تو اس وقت ان کے ساتھ 5 کسان لیڈروں میں سے 2 بجنور کے تھے۔ اس دن بجنور سے ہی ہزاروں کسان رات میں غازی پور بارڈر پہنچے تھے۔ یاد کیجیے، تین دن بعد ہوئی بجنور کسان پنچایت سے ایک ہزار ٹریکٹر کا قافلہ غازی پور بارڈر پہنچا تھا۔ بجنور کا کسان ناراض بیٹھا ہے۔ ووٹنگ والے دن ایک الگ ہی تہوار ہوگا۔ بی جے پی اپنی پانچ سیٹ بچا نہیں پائے گی۔ اب ہمارا جواب دینے کا وقت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔