حکومت کی ہٹ دھرمی، کسانوں کا صبر اور عالمی حمایت... سہیل انجم

ادھر کسانوں کا جوش اور ان کا صبر دونوں اپنے عروج پر ہیں۔ ان مقامات پر دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے اندر آج بھی بلا کا ولولہ ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سہیل انجم

ہریانہ اور اترپردیش سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی آباد سرحدوں پر کسانوں کے دھرنے کو ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ تینوں متنازع زرعی قوانین کی واپسی اور ایم ایس پی کو قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت اور کسان یونینوں کے درمیان آٹھ دور کی بات چیت ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس کڑکڑاتی ہوئی سردی میں اب تک 65 سے زائد کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔ جن میں سے چار نے خودکشی کی ہے۔ کسی نے خود کو گولی مار لی، کسی نے زہر کھا لیا اور کوئی رسی سے لٹک گیا۔ یہ خودکشیاں مذکورہ قوانین کی مخالفت اور کسان تحریک کی حمایت میں ہوئی ہیں۔ لیکن نہ تو کسانوں کی ان اموات کا حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑ رہا ہے اور نہ ہی اس یخ بستہ سردی میں کسانوں کی زبردست دشواریوں سے حکومت متزلزل ہو رہی ہے۔

ادھر کسانوں کا جوش اور ان کا صبر دونوں اپنے عروج پر ہیں۔ ان مقامات پر دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے اندر آج بھی بلا کا ولولہ ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک قوانین کی واپسی نہیں تب تک گھر واپسی نہیں۔ انھوں نے حکومت پر دباؤ بنانے کے لیے اب تک کئی طریقے اختیار کیے لیکن سب ناکام رہے۔ حکومت کے اڑیل رویے میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ انھوں نے سات جنوری کو ٹریکٹر مارچ نکالا اور ان کا پلان یہ ہے کہ اگر حکومت نے ان کی مانگیں نہیں مانیں تو وہ 26 جنوری یوم جمہوریہ کو ٹریکٹر پریڈ کریں گے۔ یعنی دار الحکومت دہلی میں ٹریکٹر ریلی نکالیں گے۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کے پریڈ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے لیکن اپنی پریڈ بھی نکالیں گے۔ اس کے لیے خواتین کو بھی ٹریکٹر چلانا سکھایا جا رہا ہے۔ کسان رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو وہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ بھی کریں گے۔


مذکورہ تینوں بارڈرس پر تمام تر شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں۔ مردووں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ہیں۔ تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی ہیں۔ سابق فوجی بھی ہیں۔ ڈاکٹر بھی ہیں۔ اساتذہ بھی ہیں۔ دوسری ریاستوں سے بھی لوگ پہنچ رہے ہیں۔ جن میں ہر قسم کے کام کرنے والے موجود ہیں۔ کسانوں کی جانب سے وہاں جو انتظامات کیے گئے ہیں وہ قابل دید ہیں۔ یومیہ ہزارو ں افراد کا کھانا مشینوں کے ذریعے پک رہا ہے۔ قسم قسم کی مشینیں وہاں نصب کر دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی کوینٹل کے کوینٹل گڑ لے کر پہنچ رہا ہے تو کوئی دوسری اشیا۔ ٹینٹ اور رضائی گدوں کی بھرمار ہے۔ ضرورت مند کسانوں کے لیے کپڑے لتے کا مفت انتظام ہے۔ ایک ایسی دکان بھی کھل گئی ہے جو کرتا، پائجامہ، شرٹ، پینٹ، موزے، تولیہ، صابن اور ہر قسم کی ضرورت کی اشیا مفت دے رہی ہے۔ یہ سب رفاہی تنظیموں کے لوگ کر رہے ہیں۔ ٹکری بارڈر پر تو 80 بستروں والا ایک اسپتال قائم کر دیا گیا ہے جہاں آکسیجن سلینڈر سے لے کر تمام قسم کے ضروری آلات موجود ہیں۔ ڈاکٹر اور نرسیں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سنگھو بارڈر پر آٹھ کلومیٹر تک کسان دھرنے پر بیٹھے ہیں۔

ادھر اندرون ملک کے علاوہ عالمی سطح پر بھی کسانوں کے احتجاج کو حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کناڈا، آسٹریلیا اور اقوام متحدہ تک سے کسانوں کی حمایت میں آواز بلند ہو رہی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق 25 ملکوں کی 80 تنظیموں اور افراد کی جانب سے کسانوں کی حمایت میں بیانات دیے گئے ہیں۔ برطانیہ میں ایک رکن پارلیمنٹ تنمن جیت سنگھ کے ایک ٹوئٹ کے مطابق سو سے زائد پارلیمنٹیرین نے وزیر اعظم بورس جانسن کے نام ایک مکتوب میں ہندوستان میں کسانوں کے احتجاج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنمن جیت سنگھ کی سرگرمی کی وجہ سے برطانیہ میں کسانوں کے احتجاج کو خبروں میں خوب جگہ مل رہی ہے۔


پانچ جنوری کو لکھے گئے اس خط میں بورس جانسن سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کو اور کسانوں کے خلاف پولیس کارروائی کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے اٹھائیں۔ خیال رہے کہ بورس جانسن یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے آنے والے تھے لیکن برطانیہ میں نئے قسم کے وائرل کے ظہور کے بعد تشویشناک صورت حال کی وجہ سے انھوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے سکریٹری خارجہ ڈومنک راب سے کہا تھا کہ وہ جب دسمبر میں ہندوستان جائیں تو حکومت کے سامنے اس مسئلے کو اٹھائیں۔ لیکن انھوں نے وزیر حارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کے دوران اس معاملے کو نہیں اٹھایا۔ اس سے قبل پانچ دسمبر کو 36 برطانوی پارلیمنٹیرین نے سکریٹری خارجہ کو لکھا تھا اور ان سے اپیل کی تھی کہ وہ کسانوں کے احتجاج کا معاملہ اٹھائیں۔

امریکہ میں سات قانون ساز وزیر خارجہ مائک پومپیو کو پہلے ہی اس بارے میں خط لکھ چکے ہیں۔ انھوں نے ان سے اپیل کی تھی کہ وہ اس معاملے پر حکومت ہند سے رابطہ قائم کریں اور اپنے ہم منصب سے بات کریں اور انھیں یہ بتائیں کہ امریکہ پرامن احتجاج کے حق کا حامی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت سے ہند نژاد امریکی مذکورہ قوانین سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں ان کے اعزا و اقربا ہیں اور وہاں ان کی زمینیں ہیں۔ وہ متاثر ہوں گے تو یہ بھی متاثر ہوں گے۔


کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس پر حکومت ہند نے اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس میں کسی دوسرے ملک یا اس کے رہنما کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے باوجود جسٹن ٹروڈو اپنے موقف پر قائم ہیں۔ وہاں کے کئی سیاسی رہنماؤں نے بھی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی ہے۔ انھوں نے کسانوں پر پولیس کے مبینہ طور پر طاقت کے استعمال کی مخالفت و مذمت بھی کی ہے۔

آسٹریلیا میں لیبر پارٹی کے ایم پی راب مشیل نے پارلیمنٹ میں بولتے ہوئے کسانوں کی حمایت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کسانوں کے ساتھ پولیس کے مبینہ سلوک سے وہ اور ان کا ملک پریشان ہے۔ انھوں نے حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ کسانوں کے ساتھ صبر و تحمل کے ساتھ معاملات کرے۔ آسٹریلیا کے ملبورن میں ہندوستانی قونصلیٹ سے پارلیمنٹ ہاوس تک ایک کسان ریلی بھی نکالی گئی۔ ادھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا ہے کہ عوام کو پرامن احتجاج کا حق ہے اور حکومت و انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان کو یہ حق دیں۔


بہرحال یہ جہاں ایک انسانی معاملہ ہے وہیں ہندوستان کا اندرونی معاملہ بھی ہے۔ کسی دوسرے ملک کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی ملک میں عوام کی جانب سے انصاف پر مبنی کوئی آواز اٹھائی جاتی ہے تو دوسرے ملکوں کی جانب سے ان کی حمایت کی جاتی ہے۔ خود ابھی ہندوستان نے امریکہ میں کیپٹل پر مشتعل افراد کے حملے اور پانچ افراد کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بہرحال ایسا لگتا ہے کہ کسانوں کا معاملہ ایک ایسی اندھی سرنگ میں داخل ہو گیا ہے جہاں سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کی اس تحریک کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس پر حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن سیاست کر رہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی خود جب اپوزیشن میں تھی تو عوامی معاملات پر سیاست کرتی تھی۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے گیس سلینڈر کی قیمت میں اضافہ کے خلاف سلینڈر لے کر احتجاج کیا تھا۔ بی جے پی کے دوسرے بہت سے لیڈر بھی ایسے احتجاجوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کا یہ کہنا کہ اپوزیشن سیاست کر رہا ہے بے بنیاد بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔