گودی میڈیا کو صبرینہ صدیقی سے سبق سیکھنے کی ضرورت... سہیل انجم

جب وزیر اعظم مودی کے حالیہ امریکی دورے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ پریس کانفرنس میں دو سوالوں کے جواب دیں گے تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی۔

<div class="paragraphs"><p>صبرینہ صدیقی / Getty Images</p></div>

صبرینہ صدیقی / Getty Images

user

سہیل انجم

کچھ میڈیا سوالات کے نمونے:

’’آپ اپنی جیب میں پرس رکھتے ہیں؟ آپ کو پیسوں کی ضرورت پڑے تو کیا کرتے ہیں“؟

’’آپ میں اتنی فقیری کہاں سے آئی“؟

’’آپ اتنی توانائی کہاں سے لاتے ہیں“؟

’’آپ آم کاٹ کر کھاتے ہیں یا چوس کر“؟

اب ایک اور سوال کا نمونہ:

’’آپ کی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بہتری اور اظہار خیال کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرے گی“؟

اوپر چار سوالات کے جو نمونے پیش کیے گئے ہیں وہ ہندوستانی میڈیا کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھے گئے ہیں۔ جبکہ آخری سوال امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی وائٹ ہاؤس رپورٹر کے ذریعے پوچھا گیا ہے۔ قارئین ان سوالات کے فرق کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کسی ملک کے وزیر اعظم یا حکومت کے کسی وزیر سے کوئی صحافی سوال کرے گا تو اس ملک کے مسائل کے بارے میں کرے گا اور یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ اس ملک کی حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا قدم اٹھا رہی ہے یا کیا قدم اٹھائے گی۔


اس سے قبل ہندوستان کے وزرائے اعظم پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے اور صحافیوں کی جانب سے پوچھے جانے والے مشکل سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ان کے دور حکومت کے آخری ایام میں ان کی حکومت کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو انھوں نے بغیر گھبرائے کہا تھا کہ تاریخ ان کے بارے میں صحیح فیصلہ کرے گی۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں بہت سی پریس کانفرنسیں کی تھیں۔ اسی طرح ان کے پیش رو وزرائے اعظم بھی پریس کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ وزیر اعظم پریس کانفرنس کرنے اور سوالوں کے جواب دینے میں یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے انھوں نے نو سال کے دوران ایک بھی ایسی پریس کانفرنس نہیں کی جس میں میڈیا کے تمام اداروں کو مدعو کیا گیا ہو۔ بلکہ انھوں نے اپنے چنیدہ صحافیوں کو انٹرویوز دیئے اور ان صحافیوں نے اسی طرح کے سوالات کیے جیسے کہ اوپر پیش کیے گئے ہیں۔

جب وزیر اعظم مودی کے حالیہ امریکی دورے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ پریس کانفرنس میں دو سوالوں کے جواب دیں گے تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ دراصل مودی حکومت کے اہلکاروں نے اس سے بچنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے تھے لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ان کو بتا دیا تھا کہ یہ وائٹ ہاؤس کی روایت ہے اس سے ہم بچ نہیں سکتے۔ لہٰذا ان سے دو سوال کرنے کی بات طے ہوئی۔ مودی سے سوال کرنے کا قرعہ فال جس صحافی کے نام نکلا وہ امریکہ کے انتہائی باوقار اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی خاتون صحافی صبرینہ صدیقی تھیں۔ صبرینہ نے بالکل آج کا سوال پوچھا۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہو رہا ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ دو سوال پوچھے جائیں اور ان میں کوئی سوال اقلیتوں کے انسانی حقوق سے متعلق نہ ہو بلکہ ایسا ہو کہ آپ آم چوس کے کھاتے ہیں یا کاٹ کے؟


جس وقت صبرینہ نے مودی سے سوال کیا ان کے چہرے کا رنگ متغیر بلکہ فق ہو گیا تھا۔ پہلے انھوں نے پانی پیا اور پھر جو جواب دیا وہ جواب نہیں تھا بلکہ مارو گھٹنا پھوٹے سر والی بات تھی۔ سوال تھا اقلیتوں کے انسانی حقوق سے متعلق اور جواب تھا ہندوستان میں جمہوریت سے متعلق۔ لیکن اس سوال پر ہندوستان میں بلا وجہ ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ ہنگامہ کھڑا کرنے والوں میں ہندوستان کا گودی میڈیا بھی شامل تھا، بی جے پی کے لیڈر بھی شامل تھے اور حکومت حامی سوشل میڈیا بھی شامل تھا۔ حالانکہ یہاں کے میڈیا کو صبرینہ صدیقی کی جرآت مندی کو سلام کرنا چاہیے تھا نہ کہ ان کی کردارکشی۔ صبرینہ نے جہاں وزیر اعظم مودی کو آئینہ دکھایا وہیں انھوں نے ہندوستانی میڈیا کو بھی آئینہ دکھایا۔ انھوں نے یہ بتا دیا کہ کسی حکمراں سے کیسے اور کیا سوال کیا جاتا ہے۔ ہم صبرینہ کی جرآت مندی کو سلام کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ان کی کردار کشی کی اس مہم کی سختی سے مذمت کی۔

لیکن کیا ہندوستانی میڈیا صبرینہ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہے؟ جی نہیں، اگر اسے سبق سیکھنا ہوتا تو وہ صبرینہ کی صحافتی ہمت کی ستائش کرنے کے بجائے ان کے خلاف مہم نہیں چلاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا حکومت کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب پوری دنیا میں ہندوستانی میڈیا کو بڑا وقار حاصل تھا، بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس کی مثال پیش کی جاتی تھی اور یہ کہہ کر اس کی ستائش ہوتی تھی کہ اس نے خود کو جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ لیکن اب میڈیا کا جو حال ہے وہ انتہائی گھناونا ہے۔ اس نے اپنے فرض منصبی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اس نے حکومت کی حاشیہ برداری کو ہی اپنا فریضہ تصور کر لیا ہے۔ وہ حکو مت سے سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن سے سوال کرتا ہے اور ملکی مسائل کے لیے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اپوزیشن کو کھڑا کرتا ہے۔


واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا حکومت کا ترجمان بن گیا ہے۔ نیوز چینلوں کے اینکر اور بیشتر اخباروں کے ایڈیٹر اور نمائندے حکمراں جماعت بی جے پی کے لیڈروں کی زبان بولنے لگے ہیں۔ وہ جب بھی کوئی سیاسی ڈبیٹ کرتے ہیں تو خود کو حکومت کا ڈھنڈورچی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اب ان میں اتنی جرأت نہیں رہ گئی کہ وہ حکومت سے کوئی سوال کر سکیں۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی نابود ہو گئی ہے اور وہ کینچوئے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے اچھے اور ایماندار صحافی تھے وہ یا تو نیوز چینلوں کو چھوڑ چکے ہیں یا انھیں نکالا جا چکا ہے۔ لیکن وہ اب بھی اپنا کام کر رہے ہیں اور یو ٹیوب چینل قائم کرکے اپنا صحافتی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔

صبرینہ صدیقی نے بھی اپنا صحافتی فریضہ ادا کیا ہے۔ وہ امریکہ کی ایک باعزت صحافی ہیں اور ان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ وہ ایک جرآت مند اور غیر جانبدار اور ایماندار صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ اس وقت وائٹ ہاؤس میں وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر ہیں۔ وہاں کا کوئی بھی میڈیا ادارہ اپنے سب سے اچھے اور جرآت مند صحافی کو ہی وائٹ ہاؤس کا رپورٹر بناتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے قبل سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سی این این کے ایک صحافی کے سخت سوال پر ناراض ہو کر اس کا پریس کارڈ ضبط کر لیا تھا۔ سی این این نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت نے اس صحافی کا کارڈ واپس دلوایا اور ٹرمپ کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔ کیا ہندوستان کے موجودہ صحافیوں میں سے کسی صحافی میں اتنی جرأت ہے کہ وہ وزیر اعظم سے سخت سوالات کرے اور اس کا ادارہ وزیر اعظم کے خلاف عدالت جائے۔ ہاں وہ سوال کریں گے تو ویسے ہی کریں گے جیسے کہ اوپر نمونے کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ یعنی آپ میں اتنی فقیری کہاں سے آئی اور آپ اتنی توانائی کہاں سے لاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔