حکومت کے لیے ادھر کنواں، اُدھر کھائی

ای ڈبلیو ایس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے ایک ہفتے کے اندر کئی ریاستوں نے ریزرویشن کی حد میں اضافہ کرنے کے لیے تیزی سے قدم اٹھائے ہیں۔

پی ایم مودی
پی ایم مودی
user

نواب علی اختر

غیر محفوظ زمروں (ای ڈبلیو ایس) ریزرویشن پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد مرکزی حکومت کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اس کے بعد کئی ریاستوں نے ریزرویشن کی حد کو 50 فیصد سے زیادہ کرنے کی پہل کی ہے اور اس کے لیے مرکز سے تعاون طلب کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے جھارکھنڈ حکومت نے ریزرویشن کی حد میں اضافہ کرکے 77 فیصد کر دیا تھا۔ اس میں درج فہرست ذات (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی)، دیگرپسماندہ طبقہ(اوبی سی) اور انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی) کا حصہ 67 فیصد ہے، ساتھ ہی ای ڈبلیو ایس کا 10 فیصد حصہ ہے۔ حالانکہ یہ تبھی موثر ہوگا جب مرکزی حکومت اسے آئین کی نویں شق میں شامل کرے گی۔ جھارکھنڈ حکومت نے مرکز سے اس کی سفارش کی ہے۔

ای ڈبلیو ایس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے ایک ہفتے کے اندر کئی ریاستوں نے ریزرویشن کی حد میں اضافہ کرنے کے لیے تیزی سے قدم اٹھائے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے بھی مرکزی حکومت سے 50 فیصد ریزرویشن کی حد کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بہار میں حکمراں 7 پارٹیوں کے عظیم اتحاد کی حکومت کے دو اہم حلقوں کی جانب سے وزیراعلیٰ سے کہا گہا ہے کہ وہ 23 نومبر سے شروع ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں ایک قانون لائیں جس میں ریزرویشن کی حد کو 50 فیصد سے بڑھا کر 77 فیصد کیا جاسکے۔ دوسری طرف راجستھان میں بھی او بی سی کوٹہ کو 21 فیصد سے بڑھا کر 27 فیصد کرنے کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے۔


 دراصل ای ڈبلیو ایس پر فیصلے میں خواہ معاشی طور پر کمزور طبقوں کو دیئے گئے 10 فیصد ریزرویشن سے پہلے سے محفوظ طبقات کو دور رکھا گیا ہے لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ ریزرویشن کی 50 فیصد کی حد کو پار بھی کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ راجستھان میں گوجر، ہریانہ میں جاٹ، گجرات میں پاٹیدار اور مہاراشٹر میں مراٹھوں کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ جاری ہے۔ 2019 میں جب ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کو آئین میں شامل کیا گیا، اس کے بعد راجستھان نے گوجر اور چار دیگر ذاتوں کو 5 فیصد ریزرویشن دیا تو مدھیہ پردیش نے اپنا اوبی سی کوٹہ 14 فیصد سے بڑھا کر 27 فیصد کر دیا۔ اس صورت میں کل ریزرویشن 64 سے بڑھ کر 70 فیصد ہو گیا۔

دوسری طرف جن ریاستوں میں بی جے پی اپوزیشن میں ہے، وہاں 50 فیصد کی حد کو پار کرنے کے حق میں ہے، حالانکہ اس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پہلے جب ریاستوں کی طرف سے اس طرح کے اقدامات کیے گئے تو عدالت نے انہیں ریزرویشن کی زیادہ سے زیادہ حد 50 فیصد کا حوالہ دیتے ہوئے نامنظور کر دیا۔ اب اگر ریاستیں اپنے نئے کوٹہ قوانین میں آئینی ترمیم کے لیے مرکزی حکومت کو جھارکھنڈ کی طرح ہی سفارشات دینا شروع کر دیتی ہیں تو مرکز کے سامنے مشکل صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ اگر حکومت اس سے انکار کرتی ہے تو اسے سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن مرکز کے لیے انہیں منظور کرنا بھی آسان نہیں ہوگا۔


واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے غیر محفوظ زمروں (ای ڈبلیو ایس) کو ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیم میں 10 فیصد ریزرویشن فراہم کرنے کا التزام کرنے والی 103ویں آئینی ترمیم کی جوازیت کو برقرار رکھا۔ پانچ ججوں والی آئینی بنچ کے ذریعہ 2 کے مقابلے 3 کی اکثریت سے سنائے گئے فیصلے کے مضمرات بہت دورتک جاتے ہیں۔ ریزرویشن موجودہ دور کا سب سے اہم لیکن اتنا ہی پیچیدہ اور متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ ایسے میں جب پارلیمنٹ نے 2019 میں آئین میں ترمیم کرکے ملک میں غریبوں کے لیے الگ سے 10 فیصد ریزرویشن کا انتظام کیا تو وبال مچ گیا تھا۔ حالانکہ حکومت کے فیصلے پر پہلے سے ہی ہنگامہ ہونے کے اندیشے ظاہرکر دیئے گئے تھے۔ تبھی حکومت کی ترمیم کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائرکی گئی تھیں۔

ان درخواستوں میں اٹھائے گئے تمام پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے تازہ فیصلے میں جو کچھ کہا ہے اس سے کچھ چیزیں پوری طرح واضح ہو گئی ہیں۔ پہلی، اب تک کہا جاتا تھا کہ ملک میں ریزرویشن صرف سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر ہی دیا جا سکتا ہے، کسی اور بنیاد پر نہیں، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے صاف کر دیا کہ معاشی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن دیا جا سکتا ہے اور یہ آئینی التزامات کے خلاف نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ چونکہ نیا زمرہ بنا کر یہ ریزرویشن دیا جا رہا ہے اور پہلے سے شامل طبقات کے کوٹہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، اس لیے یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ نیا نظام ان طبقات کے خلاف ہے یا اس کے ذریعے ان کے مفادات کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسری یہ کہ کل ریزرویشن پر زیادہ سے زیادہ 50 فیصد کی حد بھی اس معاملے میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے۔


چیف جسٹس کی سربراہی میں آئینی بنچ نے27 ستمبر کو ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد ریزرویشن سے متعلق درخواستوں پر طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ ای ڈبلیو ایس کے تحت 10 فیصد ریزرویشن کا نظام جاری رہے گا۔ جسٹس للت اور آئینی بنچ کے رکن جسٹس ایس رویندر بھٹ نے 103ویں آئینی ترمیم سے اختلاف ظاہر کیا، جب کہ جسٹس دنیش مہیشوری، جسٹس بیلا ایم ترویدی اور جسٹس جے بی پاردی والا نے ریزرویشن کے لیے 103ویں آئینی ترمیم کا جواز پیش کرتے ہوئے اسے برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ آسان لفظوں میں دیکھیں تو سپریم کورٹ نے تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں معاشی طور پرکمزور طبقات کے لیے 10 فیصد ریزرویشن پر مہر لگا دی ہے۔

ریزرویشن سماجی انصاف کو یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ چونکہ اتنے سالوں میں بھی اس کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے، اس لیے ریزرویشن سے متعلق التزامات میں ضروری تبدیلیوں پرغوروخوض ہونا چاہیے۔ بہرحال ابتدائی طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر سماج اور سیاست کے مختلف حصوں سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ ابھی دیکھنا یہ ہے کہ کوئی فریق اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرتا ہے یا نہیں، لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ فی الحال ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا یہ فیصلہ نافذ ہو چکا ہے۔ اس نے ریزرویشن سے متعلق بظاہر ختم نہ ہونے والی مباحث کے کئی پہلوؤں پر روک لگانے کا کام کیا ہے۔ ایسے میں حکمراں بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی کوششیں کافور ہو گئی ہیں جس کے سربراہ کو ریزرویشن ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔