الیکشن 2019: پرینکا گاندھی سے سب کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت

پرینکا نے مہاتما گاندھی کا جوجملہ لکھا وہ اس طرح ہے’’میں تشدد کی اس لیے مخالفت کرتا ہوں کیونکہ جب تشدد سے کچھ اچھا حاصل ہوتا ہےتو وہ جزوقتی ہوتا ہے لیکن اس سے جو برائی پیدا ہوتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

کانگریس کی جنرل سکریٹری بننے کے بعد پرینکا گاندھی کل دوسری مرتبہ عوام سے رو برو ہوئیں۔ جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب انہوں نے لکھنؤ میں کانگریس صدر راہل گاندھی کے ساتھ روڈ شو کیا تھا تو اس دن بھی انہوں نے عوام پر جو اپنی چھاپ چھوڑی تھی اس نے مخالفیں میں بے چینی پیدا کر دی تھی۔ کل جب انہوں نے گجرات میں پہلی مرتبہ اتر پردیش سے باہر عوامی جلسہ سے خطاب کیا تو انہوں نے نہ صرف اپنی چھاپ چھوڑی بلکہ انہوں نے قومی سیاست کے لئے ایک نئی راہ پیش کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ واضح کر دیا کہ عوام اور سیاسی رہنماؤں کی ترجیحات کیا ہونی چاہییں۔ پرینکا نے نہ صرف ترجیحات پر روشنی ڈالی، بلکہ اپنے خطاب کے ذریعہ یہ بھی واضح طور پر سمجھا دیا کہ سیاسی رہنماؤں کو کن مدوں کو کس طرح عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

معاشی طور پر آج ہم کہاں کھڑے ہیں، دفاعی طور پر ہم کتنے مضبوط ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کے والدین کی کیوں نیندیں اڑگئی ہیں، کسان اپنے کھیت سے گھر واپس آنے سے کیوں ڈرتا ہے یا چھوٹا کاروباری اپنے ملازمین کے چہروں پر خوشی کیوں نہیں دے پا رہا، یہ قومی مدے ضرور ہیں لیکن اس سے بڑا مدا سماج کا بنیادی کردار اور تانا بانا ہے۔ مندرجہ بالا تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ملک کا قومی کردار اور سماج کا تانا بانا ٹوٹ گیا تو اس کا ٹھیک ہونا بہت مشکل ہو جائے گا۔ گزشتہ پانچ-چھ سالوں میں ملک میں جس طرح کا شور برپا ہے اس نے ہمارے بنیادی قومی کردار کو تباہی کے کگار پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

سیاست ہر ملک اور قوم کا بنیادی کردار ہوتا ہے مگر اس کے بھی کچھ اصول اور ضابطہ ہوتے ہیں، ہمارے سیاسی رہنماؤں نے گزشتہ 6 سالوں میں ان اصولوں اور ضوابطوں کو تارتار کر دیا ہے۔ وہ سیاسی رہنما جو اقتدار کے سب سے اعلی مسند پر بیٹھے ہوں، وہ اگر بات کہنے کے لئے شور اور صرف منفی تنقید کا سہارا لیں یا چیخ و پکار کریں اور بات ایسے کریں جس سے یہ محسوس ہو کہ کوئی ایسا شخص بات کر رہا ہو جس کو کبھی اچھے لوگوں میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملا ہو۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر اتنے اعلی عہدوں پر بیٹھے اشخاص اپنی گفتگو اور خطاب کا معیار خراب کر دیں گے تو لاشعوری طور پر عوام کی طرز گفتگو بھی اسی طرح کی ہو جائے گی۔ غلط بیانی، ایسے وعدے کرنا جن پر عمل نہ کیا جا سکے، اقتدار کے دوران صرف سابق حکومتوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا، دھرنے اور مظاہرہ کرنا کسی بھی حکومت اور سماج کے لئے اچھے نہیں ہوتے، ہمیں پتہ بھی نہیں لگتا کہ کب یہ بری عادتیں ہماری سماجی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔

پرینکا نے اپنے خطاب کے ذریعہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ہمیں کیا بات کرنی چاہیے اور کیسے کرنی چاہیے، انہوں نے جہاں عوامی بیداری کو سب سے بڑا ہتھیار بنایا وہیں انہوں نے فطرت کی بہت خوبصورتی سے تشریح کی۔ یہ بات اگر انہوں نے وزیر اعظم کے اس فطرت والے جملہ کے جواب میں کہی ہے تو انہوں نے بہت خوبصورتی اور سلیقے سے اس الفاظ کی ادائے گی کی ہے۔ دراصل وزیر اعظم نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی فطرت ہے کہ گھر میں گھس کر مارتے ہیں۔

پرینکا گاندھی نے صرف اپنے خطاب کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنے ٹوئٹ کے ذریعہ بھی واضح کر دیا کہ وہ کوئی ہلکی بات نہیں کریں گی۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں اپنی جانب سے کچھ نہ لکھتے ہوئے مہاتما گاندھی کا ایک جملہ لکھا جو تشدد اور محبت کے فرق کو نشان زد کرتا ہے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی کا جو جملہ لکھا وہ اس طرح ہے ’’میں تشدد کی اس لیے مخالفت کرتا ہوں کیونکہ جب تشدد سے کچھ اچھا حاصل ہوتا ہے تو وہ جز وقتی ہوتا ہے لیکن اس سے جو برائی پیدا ہوتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے۔‘‘

ملک کو واپس پٹری پر لانے کے لئے ملک کو کئی پرینکا گاندھی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنی ترجیحات نہیں بدلیں اور شائستگی کو اپنی گفتگو کا معیار نہیں بنایا تو ملک ترقی کتنی بھی کر لے لیکن ہم ایک اچھی تہذیب کے طور پر اپنی شناخت کھو دیں گے اور ہمارے ملک کے بارے میں بھی وہی تاثر بن جائے گا جو آج کچھ ٹی وی چینلس اور ان کے اینکرس کے بارے میں باشعور طبقہ کا بنتا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔