بہار: اقتدار مخالف لہر اور مہاگٹھ بندھن کی مضبوطی کے سامنے این ڈی اے کی حالت خستہ

بہار میں مودی-نتیش کی قیادت والی این ڈی اے کو اقتدار مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یعنی مرکزی اور ریاستی سطح دونوں پر حکومت مخالف لہر ہے۔ اس درمیان مہاگٹھ بندھن ان کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

بہار میں کانگریس-آر جے ڈی اور دوسری پارٹیوں کے مہاگٹھ بندھن نے جب سیٹوں کی تقسیم کا فارمولہ سامنے رکھا تو سیاسی تجزیہ نگاروں کو اس پر حیرانی ہوئی کہ آخر جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ کنہیا بیگو سرائے سیٹ سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ لالو پرساد یادو نہیں چاہتے کہ بہار میں کوئی دوسرا یوتھ لیڈر ابھرے تاکہ ان کے بیٹے تیجسوی یادو کو کوئی سیاسی چیلنج نہ ملے۔ آر جے ڈی ذرائع کا کہنا ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں بیگوسرائے سیٹ سے آر جے ڈی کے تنویر حسن دوسرے نمبر پر رہے تھے اور وہ گزشتہ پانچ سال سے لگاتار اس سیٹ کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ ایسے میں تنویر کو ٹکٹ نہ دینا ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔

حالانکہ اس سیٹ کے لیے اب بھی مول تول جاری ہے، لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب لالو کی آر جے ڈی نے کسی پارٹی یا کسی کاسٹ گروپ کو اتنی چھوٹ دی ہو۔ آر جے ڈی نے جب 22 مارچ کو سیٹوں کی تقسیم کا اعلان کیا تو بہار کی آرہ سیٹ سی پی آئی (مالے) کے لیے چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔ اس طرح آر جے ڈی بہار کی کل 40 میں سے 19 سیٹوں پر انتخاب لڑے گی، جب کہ کانگریس کے حصے میں 9، اوپیندر کشواہا کی آر ایل ایس پی کے لیے پانچ اور ہندوستانی عوام مورچہ اور وکاس شیل انصاف پارٹی کے لیے تین تین سیٹیں چھوڑی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سیٹ بہار کے سینئر لیڈر شرد یادو کو دی گئی ہے جو آر جے ڈی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے۔

کنہیا کمار سی پی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے ہیں، لیکن سی پی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اسے صرف بیگوسرائے کی سیٹ دے دی جاتی تو وہ اسی سے خوش ہوتی۔ اس طرح اگر اس انتخاب میں سی پی آئی نے زیادہ امیدوار میدان میں اتار دئیے تو وہ صرف بی جے پی مخالف ووٹوں کا ہی بنٹوارا کرے گی جس سے مہاگٹھ بندھن کو نقصان ہو سکتا ہے۔

لیکن 2014 کی طرح اس بار کہیں کوئی مودی لہر نظر نہیں آ رہی ہے اور بہار میں لوگوں کا نتیش کمار سے بھی دل ٹوٹا ہوا نظر آ رہا ہے، ایسے میں فی الحال پلڑا مہاگٹھ بندھن کا ہی بھاری نظر آ رہا ہے۔ ویسے بھی اس بار کے انتخاب میں اپوزیشن خیمہ میں زیادہ شفافیت اور اتحاد نظر آ رہا ہے نہ کہ این ڈی اے میں۔

2014 میں نتیش کمار کی جے ڈی یو نے بی جے پی کے خلاف انتخاب لڑا تھا اور صرف 2 سیٹوں پر ہی فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس کے حصے میں صرف 16 فیصد ووٹ ہی آئے تھے۔ اس انتخاب میں جہاں مغربی بنگال کی ممتا بنرجی اور اڈیشہ میں نوین پٹنایک نے مودی کا رتھ روکا تھا، لیکن نتیش کمار ایسا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس بار تو بہار کے لوگ بگڑتے نظام قانون، شراب بندی کی ناکامی اور بڑھتی بدعنوانی سے پریشان ہیں۔ ساتھ ہی گزشتہ پانچ سال کے دوران ریاست میں کوئی صنعت کاری نہیں ہو پائی، غریبوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ مبینہ شراب بندی نے بلیک مارکیٹ کو فروغ دیا اور غیر قانونی شراب کے دھندے میں این ڈی اے لیڈروں کے نام سامنے آئے۔ اس سب کی وجہ سے ریاست میں بڑے پیمانے پر لوگوں میں نتیش حکومت اور مرکز کی مودی حکومت کے خلاف بے حد ناراضگی ہے۔

لوگ یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ کس طرح نتیش کمار نے نوٹ بندی کی حمایت کی تھی اور اس کی تعریف میں قصیدے پڑھے تھے۔ نوٹ بندی کے سبب بہار کے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے اور وہ مجبوراً اپنے گھروں کو لوٹنے کو مجبور ہو گئے۔ ہچکچاہٹ بھرے جی ایس ٹی کے نافذ ہونے سے بہار کے چھوٹے کاروباروں کا کباڑا ہو گیا۔ اور سب سے بڑی بات، وعدے اور اعلان کے بعد بھی بہار کو نہ تو خصوصی ریاست کا درجہ ملا اور نہ ہی 2015 میں پی ایم مودی کے ذریعہ کیے گئے اعلان کا سوا لاکھ کروڑ روپے ملا۔

نتیش کمار نے 2017 میں جب مہاگٹھ بندھن کی پیٹھ میں چھرا بھونک کر این ڈی اے میں واپسی کی تو این ڈی اے لیڈروں نے دعوے کیے کہ اب بہار مودی-نتیش کے ڈبل انجن کی رفتار پکڑے گا۔ لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی یہ ڈبل انجن بہار کو رفتار دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ ہاں، اتنا ضرور ہوا کہ بہا رمیں ایک کے بعد ایک گھوٹالے سامنے آتے گئے۔ سریجن گھوٹالہ ہو یا مظفر پور شیلٹر ہوم کیس، دونوں معاملوں میں این ڈی اے لیڈروں کی شراکت داری سامنے آئی۔ مظفر پور شیلٹر ہوم کیس میں تو زبردست دباؤ کے بعد نتیش کی وزیر منجو ورما کو استعفیٰ دینا پڑا۔

سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اس بار یادو فیملی مضبوط ہے اور ریاست کے یادو لالو کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عام لوگ یہی سوچ رہے ہیں کہ چارہ گھوٹالہ میں لالو کو تو جیل میں ڈال دیا گیا لیکن سریجن گھوٹالے میں شامل لیڈر اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس طرح کی مایوسی اور کشمکش کے درمیان بہار میں سب سے کمزور اگر کوئی نظر آ رہا ہے تو وہ این ڈی اے ہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔