کانگریس کو شکست سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں

ذرائع ابلاغ انتخابی تشہیر کے دوران بھی منقسم نظر آیا اور بعد میں بھی، بی جے پی حامی اور بی جے پی مخالف دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں تشہیر اور نتائج کو پیش کرتے رہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

3 دسمبر کو چار ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اعلان ہو گیا۔ چار میں سے تین ریاستوں میں بی جے پی اور ایک ریاست میں کانگریس اقتدار میں آئی۔ خاص بات یہ ہے کے اقتدار مخالف لہر کا اثر مدھیہ پردیش کو چھوڑ کر سبھی ریاستوں میں نظر آیا، لیکن مدھیہ پردیش کے عوام نے ماما یعنی شیوراج چوہان کی حکومت میں اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ اس کے بعد مبصرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنا شروع کر دیا، یا یوں کہئے کہ جو میڈیا میں چل رہا تھا اس کو اپنے انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا۔

ذرائع ابلاغ انتخابی تشہیر کے دوران بھی منقسم نظر آیا اور بعد میں بھی، جو بی جے پی حامی تھے وہ اپنے انداز میں تشہیر اور نتائج کو پیش کرتے رہے اور جو بی جے پی مخالف تھے وہ تشہیر اور نتائج کا اپنے انداز میں پوسٹ مارٹم کرتے نظر آئے۔ نتائج سے بی جے پی حامی صحافیوں اور مبصرین کی بلّے بلّے ہو گئی اور بی جے پی مخالفین نے نتائج آنے کے بعد، دو دن پہلے جن پہلوؤں پر کانگریس اور کانگریسی رہنماؤں کی تعریف کے پل باندھے ہوئے تھے، انہوں نے ایک ایک کر کے کانگریس کو اس کی کمیوں کو لے کر آئینہ دکھانا شروع کر دیا۔ کسی نے کہا کہ راہل بہت سیدھے رہنما ہیں، کسی نے کہا کہ بی جے پی کی ہندوتوا کی پچ پر جا کر کھیلنے کی کیا ضرورت تھی، کچھ نے کہا کہ کمل ناتھ اور گہلوت نے کسی کی نہیں سنی، پرینکا گاندھی انتخابات نہیں جتا سکتیں، کھڑگے کا ہندی بیلٹ پر کوئی اثر نہیں ہے... یعنی سب نے اپنے اپنے انداز میں رائے کا اظہار کیا۔


کچھ لوگوں نے جہاں اس شکست کے لیے ای وی ایم کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں کچھ لوگوں نے اس ہار میں بھی جیت کے پہلو نکالنے شروع کر دیے۔ جن کو اس ہار میں جیت نظر آئی ان کا ماننا ہے کہ کانگریس اب انڈیا اتحاد میں ذرا ڈھنگ سے بات کرے گی، اگر جیت جاتی تو وہ بہت حاوی ہو جاتی اور کچھ نے تو کانگریس کو زیادہ ووٹ ملنے کا ذکر کیا اور اگر ایسے ہی نتائج لوک سبھا میں بھی آئے تو بی جے پی کو کتنی سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے، کیونکہ 2019 میں ان ریاستوں میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی تھی۔ بہرحال یہ سب دل کو بہلانے کے لیے ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی اور مودی کی جیت ہوئی ہے جس کا نفسیاتی فائدہ لوک سبھا میں بی جے پی کو ملے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ ای وی ایم کو کوئی کتنا بھی ذمہ دار ٹھہرائے لیکن ہندوستان کے مفاد میں سوچنے والے اقلیت میں آ گئے ہیں اور ایک مذہب کو فروغ دینے کی سوچ بہت زیادہ حاوی ہو گئی ہے۔ کھلی سوچ رکھنے والے اور ملک کے مفاد میں سوچنے والے لوگ بہت تیزی کے ساتھ سمٹ رہے ہیں اور آئندہ کچھ سالوں میں مزید کم ہو جائیں گے۔ یا یوں کہئے کہ مصلحتاً کچھ لوگ اپنے خیالات کا اظہار ایسے نہیں کریں گے جیسے وہ کیا کرتے ہیں یا کیا کرتے تھے۔ اور یہ مصلحت پسندی ملک کو بہت نقصان پہنچائے گی۔


بی جے پی نے ہندوستانی مسلمانوں کا استعمال ایک خاص مذہب کے ووٹوں کو اپنی جانب رکھنے کے لیے کیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہندوستانی مسلمانوں نے قومی نظریہ کا جھنڈا بلند کر رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کانگریس کچھ ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں میں بھی مذہبی شدت پسندی بڑھی ہے، اب اس کو رد عمل کہئے یا اس کو کوئی اور نام دیجیے۔ جہاں ایک مذہب کے لوگوں میں مذہبی شدت پسندی بڑھی ہے وہیں مسلمانوں میں عمرہ پر جانا، تبلیغی جماعت کی پیروی کرنا، مسجدوں اور مزاروں پر بھیڑ، حجاب کے رجحان وغیرہ وغیرہ بہت سے ایسے پہلو ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی شدت پسندی بڑھی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہندوستانی مسلمان ملک کے مفاد میں سوچ رہا ہے اور باقی ملک کی اکثریت ایک مذہب کے فروغ کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

انتخابی نتائج نے کانگریس اور کانگریس کی قیادت کو ہلا کر تو رکھ دیا ہوگا، لیکن اگر اقتدار سے بڑھ کر ملک کا مفاد اس کی فکر ہے تو پھر پارٹی کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس نے جو مسائل ان انتخابات کے دوران اٹھائے ہیں ان پر اس کو قائم رہنا چاہئے کیونکہ کانگریس کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل کا سیدھا تعلق عوام سے ہے۔ کانگریس نے ملک کے نظریہ کو جو اہمیت دی ہے، اس پر برقرار رہنا ملک کے مفاد میں ضروری ہے۔ انتخابی نتائج سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لوگوں کی رائے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کا مقصد صحیح ہونا چاہئے۔ عوام کو بھی ایک دن اس کا احساس ہو جائے گا۔ کانگریس نے انتخابی تشہیر شاندار کی، جب کوئی شخص آگے بڑھتا ہے تو دس طرح کے لوگ اپنی رائے دیتے ہیں، بس آپ کا مقصد درست ہونا چاہئے اور آپ کے اقدام جائز اور مشاورتی ہونے چاہئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔