یوگی کی متعصبانہ سوچ سے وزیر اعلیٰ کا وقار مجروح... نواب علی اختر

یوگی آدتیہ ناتھ محض ایک فرد نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ انہوں نے دستور ہند کے نام پر حلف لیا ہے اور دستور نے مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیاز اور بھید بھاؤ کی مخالفت کی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ایک نفرت آلود بیان آج کل سرخیوں میں ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ مسجد کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد تقریب میں قطعی شرکت نہیں کریں گے۔ یوگی کے اس بیان پر مجھے ذرا بھی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ بی جے پی کا یہ لیڈر ’ہندو۔ مسلم‘ سیاست کی پیداوار ہے اور اسی سیاست سے اسے عروج بھی حاصل ہوا ہے اسی لئے اپنے آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یوگی اکثر اشتعال انگیز بیان بازی کر کے اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کی بھی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ایک مٹھ کے پجاری ہیں، لیکن حیرانی اس بات پر ضرور ہے کہ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ برملا اپنی تنگ ذہنیت کا اظہار کرنے میں گریز نہیں کرتا ہے جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

یوگی نے ایسے وقت جب بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھے جانے کو لے کر ملک میں پراسرار کشیدگی پھیلی ہوئی ہے، ریاستی حکومت کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی اپنے دستوری فرائض و ذمہ داریوں کی پرواہ کیے بغیر ایک بار پھر نفرت انگیز یا فرقہ پرستانہ بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایودھیا میں رام مندر کے بھومی پوجن میں تو بحیثیت ایک ہندو شریک ہوئے ہیں، لیکن اگر مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے تو وہ اس میں شرکت نہیں کریں گے۔ مسجد کے سنگ بنیاد تقریب میں مدعو کیے جانے کی خوش فہمی پالنے والے یوگی کو بھی معلوم ہوگا کہ اس طرح کی کسی تقریب میں انہیں نہیں بلایا جائے گا، مگر مذکورہ اشتعال انگیزی سے انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی سیاست چلی ہے۔


یوگی کے منہ سے اس طرح کا بیان کوئی نئی بات نہیں ہے وہ اکثر ایسے بیانات دیتے رہے ہیں اور آگے بھی اسی طرح کی امید کی جانی چاہیے کیونکہ انہیں سماج کی نہیں بلکہ کرسی کی فکر ہے۔۔ وہ ہندو۔ مسلم سیاست کی ہی پیداوار ہیں اور اسی سیاست سے انہوں نے عروج بھی حاصل کیا ہے۔ نفرت کی سیاست کے چمپئن بننے کی خاطر وہ جذباتی استحصال میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مسلم خواتین کو قبور سے نکال کر عصمت دری کرنے جیسے گھٹیا تبصرے بھی کیے تھے اور ان کی انتہائی شدت پسندانہ فرقہ پرستی کی وجہ سے ہی انہیں اترپردیش کی وزارت اعلیٰ کا انعام دیا گیا تھا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اسی طرح کے قائدین کی ضرورت ہے اور اسی طرح کی اشتعال انگیزیوں اور فرقہ پرستانہ ریشہ دوانیوں نے بی جے پی کو عروج بخشا ہے۔

فرقہ پرست تنظیموں کا قیام ہو یا پھر مسلمانوں کے خلاف انتہائی گھٹیا اور نازیبا تبصرے یا پھر دھمکی آمیز زبان، یہ یوگی آدتیہ ناتھ کی شخصی رائے تھی اور ان کی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھی۔ تاہم اب یوگی آدتیہ ناتھ محض ایک فرد نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلیٰ اور سربراہ حکومت ہیں۔ انہوں نے دستور ہند کے نام پر حلف لیا ہے اور دستور نے مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیاز اور بھید بھاو کی مخالفت کی ہے۔ دستور ہند نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور حکومت کسی مذہب کی تائید و حمایت یا سرپرستی نہیں کرسکتی۔ یوگی نے اترپردیش کی وزارت اعلیٰ پر فائز ہوتے ہوئے ایک مندر کی تعمیر کے ’بھومی پوجن‘ میں شرکت کی اور عوامی سطح پر اس تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا حالانکہ ملک میں کورونا کی وباء شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے۔


ریاست کے وزیراعلیٰ رہنے تک یوگی کو اپنی فرقہ پرست روش کو ترک کر دینا چاہیے کیونکہ وہ صرف ہندووں کے وزیراعلیٰ نہیں ہیں بلکہ پوری ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ریاست میں ہندو اور مسلمان کی جو بھی آبادی ہو، وہ سبھی کے وزاعلیٰ ہیں اور یہ زبان وزیراعلیٰ کے وقار کو مجروح کرنے والی ہے۔ یوگی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک مسجد کی تعمیرکے لیے اگر کوئی تقریب ہوتی ہے تو اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرکے اپنے اس حلف کی خلاف ورزی کی ہے جو انہوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے لیا تھا۔ اگر وہ کسی تقریب میں شرکت نہ بھی کرنا چاہیں تو اس پر اس طرح کی فرقہ پرستانہ روش اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یوگی کو یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ انہیں اب کسی ہندو یا یوگی کی حیثیت سے کہیں مدعو نہیں کیا جاتا۔

یوگی کو اگر کہیں مدعو کیا جاتا ہے تو وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ہی مدعو کیا جاتا ہے اور وہ شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن ریاستی حکومت کے سربراہ ہوتے ہوئے اور دستور کے نام پر حلف لینے کے باوجود ا س طرح کی متعصبانہ سوچ اور منفی نظریہ کا سر عام اظہار کرنا اور اس پر فخر کا اظہار بھی کرنا انتہائی معیوب عمل ہے۔ مگر مٹھ کے ’پجاری‘ پر ان سب باتوں کا کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ ان کا بیان سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری ہے تبھی انتہا پسندوں کا گروہ انہیں اپنا آقا ماننے کے لیے تیار ہوسکے گا۔ ملک میں 2014 کے بعد سے ایک ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں بالخصوص اترپردیش میں بی جے پی کا ہر چھوٹا بڑا پیادہ ہندوتوا کا ’مائی باپ‘ بننے کے لیے ہر وقت کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔