ندائے حق: عرب نوجوان، نئی امنگیں، نئے رجحانات ... اسد مرزا

ایک حالیہ سروے میں عرب نوجوانوں میں بدلتے ہوئے رجحانات اور خیالات کے متعلق کئی حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔

محمد بن سلمان اور محمد بن زاید، تصویر بشکریہ العربیہ
محمد بن سلمان اور محمد بن زاید، تصویر بشکریہ العربیہ
user

اسد مرزا

دوحہ میں واقع عرب سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز نے حال ہی میں عربوں کے درمیان ایک سروے کرایا جس سے کئی امور کے سلسلے میں عرب شہریوں کے خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ساتواں سروے تھا جس میں 13عرب ممالک کے 28288 افراد سے 95 مختلف سوالات پوچھے گئے تھے۔

اس سروے سے جہاں عام عرب شہریوں کے خیالات کا پتہ چلا وہیں ان دو عرب رہنماوں کے بارے میں بھی عوامی رائے سامنے آئی، جن کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عرب خطے کو ایک نئی سمت دینے میں رہنمائی کرسکتے ہیں۔ سروے کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے ان کے ہم منصب محمد بن زاید اس سلسلے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں رہنماؤں نے اپنی حکمرانی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے اور خطے کے ممالک کو دنیا کے متعلق اپنے نظریات کو بڑی حد تک تسلیم کرانے کے لیے مذہب کی جگہ قوم پرستی کو آئیڈیا لوجی کے طور پر تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔


نیا عرب نظریہ

عرب نوجوانوں کا یہ طبقہ اسلام کی پرانی سیاسی تشریح کو مسترد کرتا ہے، حکمراں کی تابعداری کو مذہبی فریضہ نہیں سمجھتا ہے، اظہار راے یا اختلاف رائے کی آزادی کا حامی ہے اور کفر اور غلامی جیسے مسائل پر پرانے نظریات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ ان کی ایک نئی تشریح چاہتا ہے۔ مذہب کے تئیں نوجوانوں کے رویے میں اس تبدیلی کا ثبوت متعدد عوامی رائے شماری سے واضح ہے۔ اس کا اظہار لبنان اور حال ہی میں عراق جیسے ملکوں میں حکومت مخالف عوامی مظاہروں کے دوران بھی ہوا۔ اور نوجوانوں کے اس نقطہ نظر نے دونوں ولی عہد شہزادوں کے نقطہ نظر کو بھی متاثر کیا ہے۔

دونوں حکمرانوں نے سماجی پابندیوں کو نرم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب میں مذہبی پولیس کے اختیارات میں تخفیف کرنا، خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر عائد پابندی کو ختم کرنا، مخلوط محفلوں کے متعلق ضابطوں کو نرم کرنا، مغربی طرز کی تفریحات کا سلسلہ شرو ع کرنا، خواتین کے لیے پیشہ ورانہ ملازمت کے زیادہ مواقع فراہم کرنا اور متحدہ عرب امارات میں ایک حد تک حقیقی مذہبی تکثیریت وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے۔


عرب نوجوان اس وقت مذہبی رہنماوں اور دانشوروں کے تئیں متشکک ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسلامی نظریات کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور ایک ماڈرن اور مسلسل تبدیل ہونے والی دنیا کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے یا انہیں ایک نئے آئیڈیل کے طور پر پیش کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کیے جانے سے بھی مایوس ہیں۔

عرب نوجوانوں کے رجحانات کے متعلق تازہ ترین سروے پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف عرب دانشور ایمن الحسین کہتی ہیں ”نوجوان یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مذہبی شخصیات، جو عرب سماج میں اب بھی بہت سے کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، بعض اوقات معمولی اعتراض بھی نہیں کرتے اور اپنے اس موقف کو تبدیل کردیتے ہیں جس پر پہلے وہ بہت زیادہ اصرار کیا کرتے تھے۔ اس سے عرب نوجوان نہ صرف مذہبی اداروں کے تئیں شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ اس سے مذہبی بیانیہ کا تناقض اور مسائل کی وضاحت میں اس کی ناکامی یا آج کی بدلتی ہوئی حقیقت کا سامنا نہ کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ اجاگر ہوکر سامنے آجاتی ہے۔“


سروے کے نتائج

سروے میں حصہ لینے والوں میں سے گوکہ 40 فیصد کا خیال تھا کہ مذہب ان کی شناخت کا اہم ترین عنصر ہے لیکن 66 فیصد نے مذہبی اداروں کی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی طرح 70 فیصد نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ اسلام جمہوریت کے متضاد ہے، جب کہ 76 فیصد کا خیال تھا کہ یہ سب سے بہتر نظم حکمرانی ہے۔ بہر حال مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے یا احتجاج کرنے کا حق جیسے معاملات پر عربوں کی رائے منقسم ہے۔ سروے کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوجوان سیاسی زندگی میں مذہبی رہنماوں کی کم سے کم مداخلت چاہتے ہیں۔

بیشتر خلیجی ممالک کی طرح سعودیوں کو بھی اپنی شکایتوں کے لیے سڑکوں پر اترنے میں بہت کم دلچسپی ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر مظاہرے ہوئے تو وہ مظاہروں کے تئیں کم ہمدرد ثابت ہوں گے۔ مختلف جائزوں کا موازنہ کرنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقتصادی مندی اور ناگزیر تبدیلی کے دور میں، جب اچھے نظم حکمرانی کی کافی اہمیت ہے، عرب اور مسلم رہنماوں کے لیے مذہب کے تئیں رویے میں کوئی بھی تبدیلی دو دھاری تلوار ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا نے قومی معیشتوں کو بہتر بنانے اور ملکوں کو اپنا امیج بہتر کرنے کا اضافی چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔


سعودی عرب اور تبدیلی

جہاں تک سعودی عرب کا معاملہ ہے، جی۔20 کی سربراہی اس کے لیے ایک مشترکہ نعمت ثابت ہو رہی ہے۔سعودی عرب اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سربراہی کو مملکت کی قیادت اور ایک بصیرت مند عالمی قائد انہ صلاحیت کے طور پر پیش کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔

حالانکہ جی 20 کی چیئرمین شپ نے سعودی عرب کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جس کی اسے سخت ضرورت تھی لیکن یہ اب تک اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ فورم کی سفارشات کے معروضی تجزیہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان سفارشات کی توثیق کے سلسلے میں کتنا اہم رول ادا کیا۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ موقف اس لیے اختیار کیا کیوں کہ سعودی نوجوان سیاسی قیادت کے رول اور مذہبی قیادت کی طرف سے ہر چیز کو آمنا وصدقنا کہہ کر قبول کرنے کے متعلق سوالات کر رہے ہیں۔ یہ بظاہر ملکی اور بیرونی ملک کی سطح پر انہیں اپنے امیج کو بہتر بنانے کا ایک اچھا موقع تھا۔ انہوں نے جو نئے اقدامات کیے ہیں اس کے نتائج ایک یا دو برس میں ظاہر ہونے لگیں گے اور اس کا اثر ان کے اپنے مستقبل پر بھی پڑے گا۔


متحدہ عرب امارات نئی سمت کی جانب

اسی طرح متحدہ عرب امارات، جو اقتصادی اور تجارتی ترقی کے لحاظ سے سعودی عرب سے کافی آگے ہے، بھی بہت کچھ شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے ہم منصب، دوبئی کے حکمراں شیخ محمد کے مستقبل کے اقدامات پر منحصر کرتا ہے۔ گوکہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرلیے ہیں تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کی نوجوان آبادی اسے کس طرح قبول کرتی ہے۔

تاہم ان دونوں مملکتوں نے جس طرح ملک پر اپنی گرفت سخت کر رکھی ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ نوجوانوں کی امنگیں پوری ہوسکیں گی الّا یہ کہ وہ قیادت کے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان سے وہاں کی سماجی کشیدگی میں اضافہ نہ ہوتا ہو۔


ان دونوں نوجوان رہنماوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں ایک طرف تو حقیقی سیاست کے مطالبات پر پورا اترنا پڑ رہا ہے جب کہ دوسری طرف مغربی دنیا سے قربت بھی برقرار رکھنی بھی ضروری ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان ایک اعتدال پسند اسلامی رویے کا مظاہرہ بھی کرنا مجبوری ہے جس کا اظہار پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات کے ایک سینئر وزیر کے اس بیان سے ہوتا ہے جو انہوں نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے موقف کی تائید میں دیا تھا۔ وزیرموصوف نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ انہیں مغربی سماج میں گھل مل جانے کی فرانسیسی صدر کے مشورے کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ اس طرح کے بیانات عرب نوجوان آسانی سے قبول نہیں کریں گے۔

(مصنف سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دوبئی سے وابستہ رہ چکے ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔