کرناٹک نے یہ بتایا کہ بی جے پی کا طوفان تھم رہا ہے!... ظفر آغا

کرناٹک اسمبلی چناؤ کا سیاسی لب و لباب یہ ہے کہ اب بی جے پی وہ بی جے پی نہیں رہی جو ابھی حال تک تھی، یقیناً بی جے پی کے خیمے میں سیندھ لگ چکی ہے جو بی جے پی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر یو این آئی</p></div>

تصویر یو این آئی

user

ظفر آغا

کرناٹک بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ یہ بی جے پی کے لیے اتنی افسوسناک خبر ںہیں ہے جتنی کہ کرناٹک 2023 اسمبلی الیکشن کے سیاسی اشارے۔ کیونکہ بی جے پی سنہ 2017 کا اسمبلی چناؤ بھی ہاری تھی۔ وہ تو امت شاہ اور ای ڈی کی کارستانیوں کے سبب کانگریس کی سرکار اقتدار سے باہر ہوئی۔ اس لیے بی جے پی کا اقتدار میں دوبارہ واپس نہ آنا اتنا اہم نہیں جتنا کہ کرناٹک چناوی نتائج کے سیاسی اشارے اہم ہیں۔ قومی سطح پر چناوی نتائج کے تین انتہائی اہم پہلو ہیں جو سیاسی منظرنامے پر ابھر کر آئے ہیں۔ اولاً، اب بی جے پی کا چناؤ جتاؤ فارمولہ ہندوتوا اپنی اپیل کھو رہا ہے۔ ابھی تک تو مسلم دشمنی اور منافرت کی سیاست بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لیے کافی تھی۔ لیکن کرناٹک میں اس بار اس کا الٹا ہی ہو گیا۔

پچھلے تقریباً ایک سال میں کرناٹک بی جے پی نے سنگھ پریوار کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر تین مسلم مخالف مسلم دشمنی کے حربے استعمال کیے اور وہ تھے حجاب کی اس قدر مخالفت کے صوبائی حکومت نے گورنمنٹ کالجوں میں حجاب پر پابندی لگا دی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ٹیپو سلطان کو ہندو دشمن ٹھہرانے میں بی جے پی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ساتھ میں بگھار کے طور پر بجرنگ دل جیسی تنظیمیں ’لو جہاد‘ کا شور مچاتی رہیں۔ لیکن جب چناوی کیمپین شروع ہوا تو نہ ہی صوبائی بی جے پی لیڈرشپ اور نہ ہی اعلیٰ کمان نے چناؤ کے دوران ان تینوں ایشوز کا ذکر کیا۔ آخر میں وزیر اعظم سمیت پوری بی جے پی نے ’بجرنگ بلی‘ کا دامن تھاما۔ لیکن بجرنگ بلی نے بھی بی جے پی کو سنجیونی بوٹی پہنچانے سے انکار کر دیا۔ لب و لباب یہ کہ ہندوتوا کرناٹک میں پٹ گیا اور یہ لگ رہا ہے کہ کم از کم جنوبی ہند میں ہندوتوا کارگر نہیں ہونے والا ہے۔


کرناٹک چناؤ کا دوسرا سب سے اہم فیکٹر یہ رہا کہ وہاں وزیر اعظم نریندر مودی کا جادو ناکام ہوا۔ وزیر اعظم نے کرناٹک میں تقریباً 42 ریلیاں اور روڈ شو کیے لیکن اپنی پوری طاقت جھونکنے کے بعد بھی مودی کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ کرناٹک سے قبل ہماچل پردیش اور مغربی بنگال اسمبلی چناؤ میں بھی پارٹی کو کامیاب کروانے میں وہ ناکام رہے تھے۔ اس کے سیاسی معنی یہ ہیں کہ مودی اکیلے اب بی جے پی کو چناؤ نہیں جتا پا رہے ہیں۔ یقیناً یہ بھی بی جے پی کے لیے بری خبر ہے۔ کرناٹک اسمبلی چناؤ کا تیسرا انتہائی اہم عنصر یہ رہا کہ اب چناؤ میں مذہب کے نام پر کم اور ذات کی بنا پر ووٹر زیادہ ووٹ ڈال رہا ہے۔ تب ہی تو بی جے پی کا سب سے اہم ووٹ بینک لنگایت نے بھی اس بار پوری طرح ساتھ نہیں دیا جبکہ کھل کر ذات کی سیاست کرنے والی دیوگوڑا کی جے ڈی (ایس) اپنے علاقے میں کافی حد تک کامیاب رہی۔ یہ تینوں باتیں بی جے پی کے لیے انتہائی پریشان کن ہیں۔

اس کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ اب بی جے پی اپنا سب کچھ کھو چکی ہے۔ اب بھی یوپی میونسپل چناؤ کے نتائج یہ بتا رہے ہیں کہ کم از کم ہندوستان کے سب سے اہم صوبہ اتر پردیش میں ہندوتوا پوری طرح کارگر ہے۔ ہندی بیلٹ اور مغربی صوبوں میں ابھی ہندوتوا میجر فیکٹر ہے اور رہے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ مودی اب بھی ہندوستان کے سب سے قدآور لیڈر ہیں اور ان کی ووٹ حاصل کرنے کی اپیل بھلے ہی ماند پڑ گئی ہو، لیکن وہ اکیلے اب بھی ملک میں باقی تمام لیڈران پر بھاری ہیں۔ ذات فیکٹر کرناٹک کے باہر کتنا کارگر ہوتا ہے یہ ابھی طے نہیں ہے۔ ہاں اب ذات کا اثر کرناٹک کے باہر بھی بڑھ رہا ہے۔


کرناٹک اسمبلی چناؤ کا سیاسی لب و لباب یہ ہے کہ اب بی جے پی وہ بی جے پی نہیں رہی جو ابھی حال تک تھی۔ یقیناً بی جے پی کے خیمے میں سیندھ لگ چکی ہے جو بی جے پی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے برخلاف کرناٹک نے حزب اختلاف کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں۔ اب بی جے پی مخالف ووٹر اور بی جے پی مخالف پارٹیاں دونوں میں ناامیدی چھٹی ہے اور یہ جذبہ اجاگر ہوا ہے کہ مودی کو چناؤ ہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فطری بات ہے کہ بدلتے سیاسی منظرنامہ حزب اختلاف کو یکجا کرنے میں کارگر رہے گا۔ کرناٹک کے نتائج کانگریس پارٹی کے لیے تو سب سے اہم ثابت ہوئے۔ کل تک تقریباً دم توڑتی کانگریس گویا اب یکایک کھڑی ہو گئی۔ کرناٹک میں پارٹی کو اکیلے اکثریت حاصل ہونے سے پارٹی کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔

راہل گاندھی اب قومی سطح پر پارٹی کے سب سے اہم لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی بھارت جوڑو یاترا کی محنت کرناٹک میں کھل کر دکھائی پڑ رہی ہے۔ پرینکا گاندھی بھی اب قومی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ ابھی حال میں ہماچل چناوی کمان اپنے ہاتھوں میں لے کر ہماچل میں کانگریس کو کامیاب کر دیا اور کرناٹک میں بھی ان کی ریلیوں کا اثر رہا۔ بی جے پی کا ’کانگریس مکت بھارت‘ کا خواب اب شرمندہ تعبیر ہونے سے رہا۔ بلکہ کرناٹک کے بعد کانگریس کے لیے جنوری میں ہونے والے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں جیت کے امکان بڑھ گئے ہیں۔ اگر کانگریس جنوری 2024 میں یہ دو صوبے اور جیت گئی تو پھر تو اس سال مئی میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس متحدہ حزب اختلاف کے ساتھ ایک انتہائی اہم پارٹی کے رول میں ابھر سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی ایک صوبہ کے چناوی نتائج پر پورے ملک کی سیاست حتمی طور پر پوری طرح طے نہیں کی جا سکتی ہے۔ لیکن کرناٹک نے یہ بتایا ہے کہ اب بی جے پی کا طوفان تھم رہا ہے، جبکہ کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیاں مل کر ملک کی سیاست میں اہم کردار نبھانے کو کمربستہ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 May 2023, 4:11 PM