کورونا بحران میں بی جے پی کی ’مہا‘ دشمنی... اعظم شہاب

مہاراشٹر کے عوام فی الوقت دو آزار کا ایک ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک آزار کورونا ہے جس سے آج پورا ملک جوجھ رہا ہے اور دوسرا بی جے پی کی سیاسی رقابت ہے جو لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیے ہوئے ہے۔

تصویرآئی اے این ایس
تصویرآئی اے این ایس
user

یو این آئی

پورے ملک میں مہاراشٹر ہی وہ واحد ریاست ہے جہاں کورونا کی دوسری لہر کافی تیزی سے پھیل رہی ہے اور غالبا یہی وہ واحد ریاست بھی ہے جسے سب سے زیادہ بی جے پی کی سیاسی رقابت جھیلنی پڑ رہی ہے۔ یہ سیاسی رقابت دومحاذوں سے ہے، ایک جانب مرکزی حکومت ہے جو کورونا کی روک تھام کے لیے درکار طبی سہولیات کی فراہمی کے معاملے میں ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو بدعنوان ونااہل بتانے سے دریغ نہیں کر رہی ہے تو دوسری جانب ریاستی بی جے پی کے لیڈران ہیں جو ریاستی حکومت کے خلاف دن رات سازشیں کرنے، نیچا دکھانے یا بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ لیکن بی جے پی کی اس سیاسی رقابت کی مار سیدھے طو رپر اب ریاست کی عوام پر پڑنے لگی ہے۔ اس لیے یہ بات کہنے میں اب کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی سیاسی رقابت کے کھیل نے اب مہاراشٹر دشمنی کی شکل اختیار کرلی ہے اس معاملے میں اس نے ان تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے جس کا حوالہ دے کر اس نے ریاست کے عوام سے ان کے ووٹ مانگ کر اسمبلی کی 105 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

یوں تو ریاست بھر میں ہر جگہ بی جے پی کے سیاسی رقابت کے نمونے پھیلے ہوئے ہیں، لیکن ہم یہاں صرف دو معاملوں کے تذکرے پر اکتفا کریں گے۔ پہلا معاملہ ناگپور میونسپل کارپوریشن کا ہے جس پر بی جے پی کا گزشتہ 15 برسوں سے قبضہ ہے، اور دوسرا معاملہ ریاست میں ریمیڈیسیور انجکشن کی فراہمی کا ہے جس پر مرکزی حکومت کی جانب سے مہاراشٹر کو فراہمی پر درپردہ پابندی کی خبریں آرہی ہیں۔ پہلے بات ناگپور میونسپل کارپوریشن کی۔


گوکہ گزشتہ سال دسمبر میں ناگپور کے گریجویٹ حلقہ اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کے ابھیجت ونجاری نے بی جے پی کے سندیپ جوشی کو 14 ہزار 4 سو سے زائد ووٹوں سے شکست دے کر بی جے پی کے55 سالہ پرانے قلعے کو فتح کرلیا تھا، مگر ناگپور میونسپل کارپوریشن ہنوز بی جے پی کے پاس ہے۔ ریاست کے دیگر شہروں کی طرح ناگپور میں بھی کورونا کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں جس کی تمام تر روک تھام کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کے طور پر میونسپل کارپوریشن کی ہے، لیکن کارپوریشن کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے 400 بیڈس کے اندراگاندھی اسپتال میں صرف 200 سو بیڈس کا ہی استعمال کر پا رہی ہے۔ ناگپورشہر کے 10زون ہیں مگر ان زونس میں کورونا ٹریسنگ بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو پا رہی ہے اور بخار کے مریضوں کو پیراسیٹامال ٹیبلیٹ دے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ دینک بھاسکر کے لیے کام کرنے والی خاتون صحافی منیشابھلّا کی ایک ڈیجیٹل رپورٹ کے مطابق سرکاری اسپتالوں کے باہر مریضوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں، لوگ لاکھوں روپیے لے کر اسپتال آرہے ہیں مگر انہیں بیڈس ہی دستیاب نہیں ہو پا رہے ہیں، نتیجتاً سڑکوں پر ہی ان کی موت واقع ہو جا رہی ہیں۔ اسی رپورٹ میں ایک نوجوان کہتا ہے کہ میرے باپ کو بیڈ نہیں ملتا لیکن موہن بھاگوت کو بیڈ مل جاتا ہے۔

جو مریض ہوم کورنٹائن ہیں ان پر بھی کارپوریشن کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور شہروں میں گھومتے نظر آجاتے ہیں جو کوورنا اسپریڈر کا کام کر رہے ہیں۔ کارپوریشن کی افرادی قوت کم کہی جاتی ہے لیکن ایسی حالت میں بھی میئر صاحب 500 بیڈس کا اسپتال شروع کرنے کا اعلان کرنا نہیں بھولتے، جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ میئر صاحب کا ایک ’جملہ‘ تھا۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری اور مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس کا تعلق اسی شہر نامراد سے ہے، مگر ایسی صورت میں جبکہ پورا ناگپور کوورونا کی زد پر ہے، یہ دونوں لیڈران آسام ومغربی بنگال کے انتخابی جلسے میں شرکت فرما رہے ہیں۔ چند روز قبل نتن گڈکری صاحب نے ناگپور کے لوگوں سے اعلان فرمایا کہ وہ دس ہزار ریمیڈیسیورانجکشن فراہم کریں گے، اس کے لیے انہوں نے ایک ہلیپ لائن نمبر بھی جاری کردیا۔ لیکن پھر اس کے بعد دو دن بعد یہ خبر بھی آگئی کہ گڈکری کا یہ اعلان بھی ایک ’جملہ‘ تھا اور جو ہیلپ لائن نمبر انہوں نے دیا تھا اس پر رابطہ کرنے پر ضلع کلکٹر سے رابطہ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔ یعنی کہ کورونا کی اس سنگین صورت حال کے باوجود گڈکری صاحب سے لے کر میئر صاحب تک سبھی جملہ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ خیر! جب آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہو تو اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بی جے پی کے اقتدار والے کارپوریشن کی عوام کوورنا سے بری طرح جوجھ رہی ہے مگر بی جے پی کے دونوں بڑے لیڈران بجائے ناگپور کے لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے یا کرانے کے ریاستی حکومت پر عدم توجہی کا الزام عائد کر رہے ہیں، جس کا خمیازہ وہاں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔


اب بات ریاست میں ریمیڈیسیور انجکشن کی قلت اور فراہمی کی۔ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان اور ریاستی اقلیتی امور کے وزیر نواب ملک نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست کو ریمیڈیسیور انجکشن کی فراہمی پر درپردہ روک لگادی گئی ہے۔ نواب ملک کے مطابق ملک کے 16 برآمد کنندگان کے 20 لاکھ ریمیڈیسیور انجکشن کا ذخیرہ موجود تھا مگر انہوں نے اسے مہاراشٹر کو دینے سے انکار کردیا۔ ان برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے انہیں یہ انجکشن مہاراشٹر کو دینے سے روکتے ہوئے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر مہاراشٹر کو یہ انجکشن دیا جاتا ہے تو ان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں گے۔ نواب ملک نے اپنے ان الزامات کے ثبوت میں ان کمپنیوں کے مالکان وحکومت کے درمیان ہوئی بات چیت کا حوالہ بھی دیا ہے۔

دوسری جانب ممبئی میں ریمیڈیسیور انجکشن کا ذخیرہ کرنے والی ایک کمپنی بروکس فارما کے مالک راجیش ڈوکانیا کو ممبئی کی بی کے سی پولیس اسٹیشن نے تفتیش کے لیے طلب کیا، کیونکہ ریاست میں ریمیڈیسویر انجکشن کی ذخیرہ پر پابندی عائد ہے۔ لیکن اس معاملے کی دلچسپ خبر یہ ہے کہ راجیش ڈوکانیا کے پولیس اسٹیشن پہنچنے کے محض نصف گھنٹے کے اندر ہی ریاست کے سابق وزیراعلیٰ اور حزبِ مخالف لیڈر دیوندرفڈنویس، قانون ساز کونسل کے حزبِ مخالف لیڈر پروین دریکر، بی جے پی ایم ایل اے پرساد لاڈ، بی جے پی ایم ایل اے پراگ الوانی پولیس اسٹیشن پہنچ گئے اور راجیش ڈوکانیا کو پولیس سے چھڑا لیا، تاکہ پولیس اس معاملے میں ان سے کوئی تفتیش نہ کرسکے۔ ظاہر ہے کہ اس تفتیش سے بی جے پی کو اپنے کسی نہ کسی راز کے افشاء ہونے کا خطرہ ہوگا۔


مذکورہ بالا دونوں پیرگراف کی باتیں محض علامتی ہی۔ پوری ریاست میں اس طرح کی درجنوں مثالیں بکھری پڑی ہیں جہاں راست طور پر عوامی مفاد کے فیصلوں کے خلاف بی جے پی کھڑی نظر آئی ہے۔ ان معاملات میں کبھی مرکزی حکومت کی جانب سے رکاوٹ آرہی ہے تو کبھی ریاستی بی جے پی کے لیڈران خم ٹھونک کر میدان میں کود جاتے ہیں۔ کبھی گورنر بھکت سنگھ کوشیاری اپنی ہوشیاری دکھاتے نظر آتے ہیں تو کبھی سابق وزیراعلیٰ حکومت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اسے ہم بظاہر مختلف پارٹیوں کی آپسی سیاسی چپقلش کہہ سکتے ہیں، جو کسی حد تک قابلِ برداشت بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر یہ چپقلش، یہ سیاسی رقابت عوام کی زندگیوں کو اجیرن کرنے لگے تو تشویش ہونا لازمی ہے۔ اور یہی تشویش اس وقت مہاراشٹر کی عوام میں نظر آرہی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو ریاست کی عوام دو آزار کا ایک ساتھ مقابلہ کر رہی ہے، ایک کورونا کا اور دوسرا بی جے پی کی سیاسی رقابت کا۔ اب یہ رقابت ریاست کے عوام کو مزید کتنی دشواریوں سے نبرد آزما کرے گی؟ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔