پھر وہی بد بختی!

نوپور شرما کا حشر دیکھنے کے بعد بھی بی جے پی ایم ایل اے کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھگوا پارٹی اپنے اندر کے عنصر پر مؤثر طریقے سے قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ٹی راجہ سنگھ، تصویر آئی اے این ایس
ٹی راجہ سنگھ، تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

ملک میں فرقہ پرست اور شرپسند عناصر کی جانب سے مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور پھر حالات کا استحصال کرنے کی سازشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ عام آدمی کے علاوہ قانون ساز اداروں میں عوام کی نمائندگی کرنے والے بھی دھڑلے سے بدبختانہ حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں کی دل آزاری اور دل شکنی کو اپنا معمول بنالیا ہے۔ حالانکہ امن پسند مسلمانوں نے اپنے صبر و تحمل اور فہم و فراست سے اب تک کی ان تمام بدبختانہ اور بیہودہ حرکتوں کو ناکام کیا ہے۔ مسلمان احتجاج ضرور کر رہے ہیں لیکن اغیار کی سازش کا شکار ہوئے بغیر امن و امان کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

عام تاثر حقیقی اندیشوں کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے کسی ریاست میں انتخابات کا وقت قریب آتا ہے وہاں فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے کشیدگی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹاتے ہوئے نفرت کو فروغ دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ ایک کارگر اور آزمودہ حکمت عملی بن گئی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہی طریقہ کار تلنگانہ میں اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہاں بی جے پی کے بمشکل تمام تین ارکان اسمبلی تھے۔ ایک کو معطل کر دیا گیا ہے اور اب صرف دو ارکان اسمبلی ہیں۔


تلنگانہ میں بھی اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی بھگوا پارٹی فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ حالانکہ شان رسالتؐ میں گستاخی کرنے والے رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ کو معطل کر دیا گیا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ ماحول کو پراگندہ کرنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی تھی اس کی شروعات ہوگئی ہے اور چونکہ راجہ سنگھ کو اس میں دوسروں پر سبقت مل رہی تھی اس لیے ایک تیر سے دو نشانے لگاتے ہوئے سنگھ کو معطل کر دیا گیا۔ اب راجہ سنگھ کی بی جے پی کو ضرورت نہیں ہے۔ معطل شدہ بی جے پی رکن اسمبلی نے جو گستاخی کی اور جس طرح سے حیدرآباد کے پرسکون ماحول کو درہم برہم کیا وہ انتہائی مذموم حرکت تھی۔

بی جے پی کے معطل ایم ایل اے راجہ سنگھ کی گرفتاری اور ضمانت کے بعد حیدرآباد میں زبردست کشیدگی پھیل گئی تھی تاہم تلنگانہ پولیس نے انہیں دو مختلف پولیس اسٹیشنوں میں سی دفعہ41 (اے) کے تحت درج مقدمات میں دوبارہ گرفتار کرلیا ہے۔ حالانکہ نوپور شرما کی حرکت سے حکومت کو جس طرح غیر آرام دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیش نظر اس بار بی جے پی کارروائی میں تیزی دکھانے پر مجبور ہوگئی۔ ایم ایل اے کے متنازعہ بیان کی خبر آتے ہی انہیں پارٹی سے معطل کر دیا گیا۔ اس سخت رد عمل کا پیغام سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا ان کے بیان والا ویڈیو بھی واپس لے لیا گیا۔ اس معاملے میں حیدرآباد پولیس کے موقف کو بھی سراہا جانا چاہیے۔


ریاست کی پولیس نے بلا تاخیر گستاخ ٹی راجہ کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کے شو کی اجازت نہ دینے کی دھمکیوں کو بھی بے اثر کر دیا۔ اس کے باوجود بہت سے سوالات ہیں جو پریشان کر رہے ہیں۔ نوپور شرما معاملے کا حشر دیکھنے کے بعد بھی بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ کا اسی طرح کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھگوا پارٹی اپنے اندر کے عنصر پر مؤثر طریقے سے قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف حیدرآباد پولیس نے منور فاروقی کے شو کو بھی پرامن طریقے سے یقینی بنایا جو اس بات کی ضمانت کہی جا سکتی ہے کہ ریاست میں شہریوں کا اظہار رائے کا آئینی حق مکمل محفوظ ہے۔

درحقیقت ملک کے مختلف حصوں میں اب اظہار رائے کی آزادی اس بات پر طئے ہونے لگی ہے کہ کہاں کس پارٹی کی حکمرانی ہے اور اس کا نظریہ کیا ہے۔ ممبئی اور بنگلور میں منور فاروقی کے شو بار بار منسوخ کئے گئے اور بالآخر انہیں منعقد ہونے نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ قومی راجدھانی دہلی میں بھی 28 اگست کو دہلی پولیس نے مجوزہ شو کی اجازت یہ کہہ کر واپس لے لی کہ ان کے شو سے ’علاقے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ اسٹینڈ اپ کامیڈی کا مواد پوری دنیا میں سیاسی ہی ہوتا ہے، یہاں تک کہ آمرانہ حکومت والے ممالک میں بھی، لیکن ہم اسے برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایسے شو کہیں ہونے نہیں دیئے جاتے تو کہیں اس کے لیے پولیس کو حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔


بات صرف کامیڈی کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کی جگہ فلم اسکریننگ، پینٹنگ نمائش یا کسی بھی فن کی شکل کی بات کرتے سب کو ایک ہی خطرہ لگا رہتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کس کے جذبات مجروح ہوجائیں اور پروگرام خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ تاثر ملک کے اندر تخلیقی امکانات کی راہ میں کیسے رکاوٹ بن رہا ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری تصویر کیسی بن رہی ہے اور اس سے نرم قوت کس حد تک متاثر ہو رہی ہے، سوچنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے لیڈران کو ان باتوں کی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔ انہیں صرف اپنی سیاسی دکان چلانے کی فکر ہوتی ہے اس کے لیے وہ ہر کام کرنے پر آمادہ رہتے ہیں خواہ وہ ملک کے لیے نقصاندہ کیوں نہ ہو۔

سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ حکومتیں بھی اکثر وبیشتر اس کا شکار ہوتی ہیں اور اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ تاہم ملک کے عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن و امان کو متاثر کرنے والوں کو ناکام بنائیں۔ اب جبکہ تلنگانہ کا سیاسی ماحول بھی گرم ہوتا جا رہا ہے اور مذہبی جذبات کے استحصال کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں ایسے میں ریاست بھر کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی کوششوں کو ناکام بنائیں۔ عوام چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سبھی کو سماجی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔ سیاسی قائدین کی اشتعال انگیزیوں اور ان کی سازشوں کا شکار ہوئے بغیر امن کو متاثر کرنے والوں کے خلاف چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔