مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت

مسلم حکمرانوں نے بھی تو مظلوم فلسطینیوں کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ ہاں اتنا ضرور کیا ہے کہ ان کے قاتلوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھائے ہیں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں کو گلے لگایا ہے۔

مظلوم فلسطینی، تصویر آئی اے این ایس
مظلوم فلسطینی، تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے رام اللہ میں مظلوم فلسطینیوں کے دفاع کے لیے سرگرم انسانی حقوق کی 7 تنظیموں کے دفاتر پر اسرائیلی فورس نے چھاپہ مار کر ایک اور ظلم کیا ہے۔ ان مزاحمتی تنظیموں پر سیکورٹی وجوہات کا بہانہ بنا کر صیہونی تالا جڑا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں صہیونی ریاست نے انسانی حقوق کی خدمات انجام دینے پر فلسطینی تنظیموں کو دہشت گرد تک قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی دفاتر کا سازوسامان ضبط کر کے دروازے بھی ویلڈ کر دیئے ہیں۔ جس کے خلاف فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔

گزشتہ ماہ بیلجئیم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، آئر لینڈ، اٹلی، اسپین، سویڈن سمیت 9 یورپی ممالک نے کہا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے کیونکہ اسرائیل نے انہیں ’دہشت گرد‘ قرار دینے کے جواز اور شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔ مذکورہ ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی سول سوسائٹی کے لیے کام کرنے کی جگہ تنگ کر دینے کے مترادف ہے، اس لیے یہ قابل قبول نہیں ہے۔


اسی کے ساتھ اسرائیلی درندوں کے سر پر ایک بار پھر خون سوار ہوگیا ہے اور انہوں نے غزہ کے نہتے اور بے بس مسلمانوں پر بمباری کر کے اب تک 42 افراد کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا ہے۔ ننھے منے بچے اور خواتین بھی ان کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھیں تو بچے خون میں لت پت چلا رہے ہیں اور اسی زخمی حالت میں ہی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسپتالوں کی حالت نہایت خستہ، اوپر سے 18-18 گھنٹے بجلی کی بندش نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق عارضی جنگ بندی تو ہوچکی ہے لیکن یہ پہلے بھی کئی بار ہوتا رہا ہے کہ جنگ بندی کے دوران ہی اسرائیل دوبارہ حملے کر دیتا ہے اور چونکہ اسے امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے لہٰذا اسے کوئی کیسے پوچھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کا جی چاہتا ہے فلسطین پر حملہ کرکے کسی نہ کسی بہانے فلسطینیوں کی نسل کشی کا شوق پورا کرتے ہوئے اپنی خون کی پیاس بجھانے لگتا ہے اور اقوام عالم خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ او آئی سی بھی مذمت اور قرارداد سے ہی اپنا فرض ادا کر دیتی ہے۔


57 رکن ممالک والی او آئی سی کا کہنا ہے کہ یہ ’مسلم دنیا کی اجتماعی آواز‘ ہے اور بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے جذبے کے تحت مسلم دنیا کے مفادات کے تحفظ اور ترقی کے لیے کام کرتی ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو اپنے قیام سے لیکر آج تک تنظیم نے مذمتی قرارداد پاس کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔ اسلامی ریاستوں کا تو یہ حال ہے کہ فلسطینی خون کے آنسو رو رہے ہیں مگر وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ شاید انہیں معلوم ہے کہ اگر ہم زبانی مذمت کر بھی لیں تو اسرائیل کو کیا فرق پڑنا ہے۔ وہ براہ راست شہری آبادیوں پر بمباری کرتے ہیں، اس کے علاوہ بھی وہ کئی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں، جن کی وجہ سے فلسطینیوں کے ہنستے بستے گھر لمحوں میں اجڑ جاتے ہیں۔

اسرائیلی بمباری میں مارے جانے والے لوگ مسلمان ہیں اور یہ بچے بھی مسلمان بچے ہیں جن کی دنیا کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہاں اگر یورپ کے ہوتے بلکہ یورپ کا کوئی جانور بھی ایسے مار دیا جائے تو اس کے حقوق کے لیے بھی نام نہاد تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں اور جانوروں کو بھی حقوق دلائے جاتے ہیں لیکن یہاں تو انسانوں کو بھی حقوق حاصل نہیں، انہیں تو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں دیا جاتا، باقی حقوق تو بہت دور کی بات ہے۔ ان کے حقوق کا تو مسلمانوں کو بھی خیال نہیں ہے۔ ان بچوں کی پرواہ تو مسلم حکمرانوں کو بھی نہیں ہے تو غیر مسلموں سے کیا شکوہ کریں۔


مسلم حکمرانوں نے بھی تو ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ ہاں اتنا ضرور کیا ہے کہ ان کے قاتلوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھائے ہیں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں کو گلے لگایا ہے، ان درندوں کے ساتھ خوشی خوشی معاہدات کیے۔ ان کی زمینیں ہتھیا کر بننے والی ناجائز ریاست کو تسلیم کرلیا۔ یہ احسان امت مسلمہ کے حکمرانوں کا ان نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے سر ضرور ہے۔ عرب حکمرانوں کی یہود و نصاریٰ سے دوستی بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس دوستی کا لازمی نتیجہ امت مسلمہ سے دوری ہے۔ امت مسلمہ کے لیے ان کے دلوں میں حقارت پیدا ہوگی یا ہوچکی ہے کیونکہ وہ امت مسلمہ کے مسائل اور پریشانیوں کو نظر انداز کرکے یہود و نصاریٰ سے دوستیاں بڑھا رہے ہیں جس سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اس بات کا ادراک ان حکمرانوں کو بھی ہے کہ یہودی خاص طور پر مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک ہیں لیکن اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے وہ اس زہر کو بھی نگلنے کے لیے تیار ہیں لیکن امت مسلمہ سے رشتہ مضبوط کرنے سے کتراتے ہیں۔ آج مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات بڑھا کر فلسطینیوں پر ان کے ناجائز قبضے کو تسلیم کر رہے ہیں تو پھر ان کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ یہودیوں کے پلان میں صرف فلسطین پر قبضہ ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا پر قبضہ شامل ہے۔ آج فلسطین تو کل دیگر ممالک کا بھی نمبر آجائے گا۔


مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں عرب دنیا کی حفاظت کے لیے امریکہ و اسرائیل نہیں مسلم ممالک سے مدد طلب کرنی چاہیے جو اخلاص کے ساتھ ان کی مدد کریں گے۔ امریکہ تو ان کے تحفظ کے نام پر انہیں بلیک میل کرتا ہے اور ان کا تیل مفت میں بٹور رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر مضبوط دفاع رکھنے والے اسلامی ممالک کو اپنی دولت کا تھوڑا سا حصہ دے کر ان سے یہ خدمات لی جائیں تو وہ دل و جان سے ان کی حفاظت کریں گے۔

اس طرح امت مسلمہ کا آپس میں رشتہ بھی گہرا ہوگا، ان کے اتحادات قائم ہوں گے اور وہ یہود و نصاریٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ یوں تمام مظلوم مسلمانوں کو کفار کے نرغے سے باآسانی نکالنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے لیکن جب تک ان کے آپس کے تعلقات اسی طرح رہیں گے تو کفار بھی ان پر غالب رہیں گے اور ایک کے بعد ایک ریاست پر قابض ہوتے چلے جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔