بہار اسمبلی انتخاب: این ڈی اے میں سیٹوں کی تقسیم کو لے کر رسہ کشی عروج پر... وشودیپک

جنتا دل یو کے کمزور ہونے اور نتیش کمار کے کم ہوتے اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بی جے پی کی خواہش زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی ہے۔

نتیش کمار اور نریندر مودی کی فائل تصویر
i
user

وشو دیپک

جیسا نظر آتا ہے، اکثر ویسا ہوتا نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان چاہے کتنی بھی ہم آہنگی نظر آئے، بہار میں بی جے پی اور جنتا دل یو کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے اراکین اسمبلی بے چین ہیں، کیونکہ انھیں نئے چہروں کو ٹکٹ میں ترجیح ملنے کے سبب اپنے نام کٹ جانے کا خدشہ ہے۔ این ڈی ٹی وی کو 16 ستمبر کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں مرکزی وزیر اور ایل جے پی (رام ولاس) کے سربراہ چراغ پاسوان نے صاف کہا کہ این ڈی اے میں سیٹوں کی تقسیم پر ابھی بات چیت شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے باوجود نتیش کمار نے یکطرفہ اعلان کر دیا کہ سنتوش کمار نرالا بکسر کی راجپور (ریزرو) سیٹ سے این ڈی اے امیدوار ہوں گے۔ جواب میں بی جے پی نے بھی مشرقی چمپارن کی موتیہاری سیٹ سے پرمود کمار کو این ڈی اے امیدوار قرار دے دیا۔

تو، کیا این ڈی اے فیملی ابھی سے بکھری ہوئی ہے؟ اور مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی دونوں ہی این ڈی اے کے لیے ایک طرح سے دردِ سر ثابت ہو رہے ہیں۔ چراغ نے بار بار کہا ہے کہ ان کی پارٹی ریاستی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’اگر کسی کو لگتا ہے کہ میں بے چینی پیدا کر رہا ہوں یا زیادہ پرجوش ہوں… تو میرے پاس باہر نکلنے کا متبادل ہمیشہ موجود ہے۔‘‘


چراغ یاد دلاتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے پچھلی بار لڑی گئی تمام 5 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں۔ اس بار وہ اسمبلی انتخابات میں 40 سیٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، حالانکہ یہ ان کے ابتدائی دعوے سے کہیں کم ہے۔ ایک وقت انہوں نے یہ تک کہا تھا کہ ان کی پارٹی تمام 243 سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ اب وہ خود کو ’دال میں نمک‘ یعنی ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایل جے پی ہر اسمبلی حلقے میں تقریباً 25,000 ووٹ کھینچنے کی قوت رکھتی ہے۔ خبر ہے کہ بی جے پی نے انہیں 25 سیٹوں کی پیشکش کی ہے، لیکن چراغ نے اس کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ انہوں نے کہا کہ سیٹوں کی تعداد بتانا ’غیر اخلاقی‘ ہوگا، کیونکہ بات چیت ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔

چراغ کی نظریں ابھی سے 2030 اور 2035 کے اسمبلی انتخابات پر لگی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے حامی انہیں بہار کا وزیر اعلیٰ بنتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ’فطری‘ ہی ہے۔ چاہے انہوں نے یہ صاف کر دیا ہو کہ اس بار این ڈی اے کا چہرہ نتیش کمار ہی ہیں، لیکن اپنی وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش کو کبھی چھپایا نہیں۔ ’بہار فرسٹ‘ جیسے نعروں سے انہوں نے اشارہ دے دیا ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل بہار ہی میں ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایل جے پی 2025 میں این ڈی اے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 2020 میں ایل جے پی نے الگ انتخاب لڑ کر جنتا دل یو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔


غور کرنے والی بات یہ ہے کہ چراغ پاسوان تنہا نہیں ہیں جو این ڈی اے کی نیند اڑا رہے ہیں۔ جیتن رام مانجھی بھی کم بڑا چیلنج نہیں ہیں۔ مانجھی کے بیٹے سنتوش رکن اسمبلی ہیں۔ مانجھی نے حال ہی میں اپنی پارٹی ہندوستان عوام مورچہ (ہم) کے مستقبل کو لے کر فکرمندی ظاہر کی ہے۔ 10 سال پرانی پارٹی ہونے کے باوجود ’ہم‘ کو اب تک ریاستی پارٹی کا درجہ نہیں ملا ہے۔ انتخابی کمیشن کے ضوابط کے مطابق اس کے لیے یا تو 8 اسمبلی سیٹیں جیتنی ہوں گی، یا ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کا 6 فیصد حاصل کرنا ہوگا۔

مانجھی کا کہنا ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب پارٹی کم از کم 20-15 سیٹوں پر الیکشن لڑے، یا تمام سیٹوں پر امیدوار کھڑے کرے۔ 2020 میں ’ہم‘ نے 7 میں سے چار سیٹیں جیتی تھیں۔ یہ اب تک کی اس کی بہترین کارکردگی تھی۔ اس بار مانجھی پر ان کے ساتوں بچوں کا دباؤ ہے، جو مبینہ طور پر ٹکٹ طلب کر رہے ہیں۔ چاہے یہ سودے بازی کا طریقہ ہو، لیکن ’ہم‘ کے چیلنج کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔


این ڈی اے کو اپنے نئے اتحادی اوپیندر کشواہا کی ’راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی‘ (آر ایل جے پی) کو بھی سیٹیں دینی ہوں گی۔ ایسے میں پرانے فارمولے سے اس بار کام چلتا نظر نہیں آتا۔ 2020 میں بی جے پی نے 110 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور 74 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ جنتا دل یو نے 115 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور 43 پر فتحیابی ملی تھی۔ جنتا دل یو کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ چراغ پاسوان کا الگ انتخاب لڑنا بھی تھی۔

ماہرین کے مطابق جنتا دل یو کے کمزور ہونے اور نتیش کمار کے گھٹتے اثر کی وجہ سے پرانے فارمولے پر اتفاق رائے بن پانا مشکل ہے۔ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اس بار بی جے پی 243 میں سے 110 سیٹوں پر الیکشن لڑے گی اور جنتا دل یو کو 100 سیٹیں ملیں گی۔ ایسے میں چراغ پاسوان، مانجھی اور کشواہا کے لیے مجموعی طور پر محض 33 سیٹیں ہی بچیں گی۔ ظاہر ہے، یہ ان کی امیدوں سے بہت کم ہے۔ ایسے میں ناراض لیڈران بغاوت کر کے بطور آزاد امیدوار بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔


این ڈی اے کے سامنے دوہرا چیلنج دکھائی دے رہا ہے۔ اسے جنتا دل یو کو عزت دیتے ہوئے زیادہ سیٹیں دینی ہیں اور بی جے پی کو بہتر اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ زیادہ سیٹوں پر فتحیاب کرانا ہے۔ لیکن اس میں بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ 2025 کی صورتِ حال 2020 جیسی سازگار نہیں ہے۔ چاہے ’ایس آئی آر‘ اور مفت اسکیمیں کچھ اثر دکھائیں، لیکن اندرونی خلفشار کو سنبھالنا مشکل ثابت ہوگا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بی جے پی اور جنتا دل یو دونوں کو کئی موجودہ اراکین اسمبلی کا ٹکٹ کاٹ کر نئے چہروں کو موقع دینا درست ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چراغ نے کہا ہے این ڈی اے میں اب تک سیٹوں کی تقسیم پر بات شروع نہیں ہوئی ہے۔

اب جبکہ اسمبلی الیکشن کا نوٹیفکیشن چند ہفتوں میں آنے والا ہے، مرکزی میڈیا نے توجہ ’انڈیا بلاک‘ کے سیٹ بٹوارے پر مرکوز کر دی ہے۔ تیجسوی یادو کے 243 سیٹوں پر الیکشن لڑنے اور وزیر اعلیٰ امیدوار کا اعلان نہ کرنے کے مسئلے پر قیاس آرائیاں کی گئیں کہ اپوزیشن اتحاد میں اختلافات ہیں۔ لیکن ’انڈیا بلاک‘ نے ان قیاس آرائیوں کو کھیل کھیل میں لیا۔ کانگریس کے انتخابی انچارج کرشنا الاورو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اتحادی پارٹیوں کے درمیان کئی دور کی بات چیت ہو چکی ہے اور سبھی ساتھیوں کے درمیان ذمہ داری برابر بانٹنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تیجسوی یادو کی ’بہار ادھیکار یاترا‘ قابلِ غور ہے۔ یہ ان علاقوں سے گزر رہی ہے جہاں 16 دن کی ’ووٹَر ادھیکار یاترا‘ نہیں پہنچی تھی۔ 2020 میں ووٹوں کا اتحادی پارٹیوں کے درمیان ٹرانسفر نہیں ہو پایا تھا۔ اس کمزوری کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی اس بار تیجسوی یادو مشترکہ ووٹ کی اپیل کر رہے ہیں۔


بہرحال، الاورو کا کہنا ہے کہ سبھی اتحادی پارٹیوں (چاہے جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہو یا ایل جے پی-پشوپتی پارس) کو مضبوط اور کمزور دونوں طرح کی سیٹوں میں حصہ داری ملے گی۔ بہار کانگریس کے معاون کنوینر شہنواز عالم کا بھی کہنا ہے کہ ’انڈیا بلاک‘ پوری طرح این ڈی اے کو ہرانے کا ہدف لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد 20 سال بعد ریاست میں اقتدار حاصل کرنا ہے۔ سیٹوں کی تقسیم میں سیٹوں کی تعداد سے زیادہ امیدواروں کی فتح پر مبنی صلاحیت کو اہمیت دی جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔