2018— آٹھ ریاستوں میں انتخابات مودی کے لیے امتحان

اس وقت بی جے پی کے لیے تین چیزیں دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ پہلا ملک میں کسانوں کی بدحالی، دوسرا بے روزگاری اور تیسرا جی ایس ٹی۔ گجرات انتخابات میں بھی بی جے پی کو انہی اسباب نے پسینہ پسینہ کیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

آئندہ سال انتخابات کا سال ہے۔ کرناٹک، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے علاوہ شمال مشرق کی چار ریاستوں یعنی میگھالیہ، تریپورہ، ناگالینڈ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ جب گجرات اسمبلی انتخابات ہوئے تھے تو اس وقت یہ باتیں زور و شور سے کہی جا رہی تھیں کہ اس ریاست کے نتائج کو دیکھ کر 2018 میں بی جے پی کے پرفارمنس کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔ گجرات کا نتیجہ آ چکا ہے، بی جے پی نے حکومت سازی کر لی ہے لیکن کانگریس جس طرح ایک مضبوط اپوزیشن کی شکل میں سامنے آئی ہے اور بی جے پی امیدواروں کو انتخاب میں ناکوں چنے چبوا دیے اس سے یقیناً بی جے پی کے دل کی دھڑکنیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی سربراہ امت شاہ کے قلع میں سیندھ لگنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اگر تھوڑا سا ووٹ اِدھر سے اُدھر ہو جاتا تو قلع منہدم ہی ہو جاتا۔

اس وقت بی جے پی کے لیے تین چیزیں دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ پہلا ملک میں کسانوں کی بدحالی، دوسرا نوجوانوں کی بے روزگاری اور تیسرا جی ایس ٹی۔ گجرات انتخابات میں بھی بی جے پی کو ان تینوں اسباب نے ہی پسینہ پسینہ کیا تھا۔ گزشتہ دنوں ایک تقریب کے دوران تقریر میں ریاست کے چیف سکریٹری جے این سنگھ نے بھی اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر یہی کہا۔ وہ کہتے ہیں ’’کسانوں کی بری حالت اور نوجوانوں میں بے روزگاری وہ دو اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں نے ریاست میں بی جے پی کے خلاف اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ لوگوں نے ایسا کر کے برسراقتدار پارٹی کے تئیں اپنا غصہ ظاہر کیا ہے۔‘‘ قابل غور بات ہے کہ نریندر مودی نے کسانوں اور نوجوانوں کو ڈھیر سارے خواب دِکھا کر ہی وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی اور پھر رواں سال 2017 میں جی ایس ٹی کے بھی خوب فائدے گنوائے تھے لیکن یہ سب وعدے جھوٹے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ گجرات میں بی جے پی نے تو ’ہندوتوا کارڈ‘ کھیل کر اور کانگریس کے خلاف لغو بیانی کر کے کسی طرح فتح حاصل کر لی لیکن کرناٹک ان کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہونے والا ہے جہاں اسمبلی کی مدت کار 28 مئی 2018 کو ختم ہو رہی ہے۔ یعنی اپریل-مئی میں انتخابات ہونےطے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں... بالی ووڈ ہی نہیں ہر برادری کے لوگ خوفزدہ ہیں: جاوید اختر

کرناٹک اس وقت بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے ’فرسٹ ٹارگیٹ‘ ہے۔ چونکہ یہاں کانگریس کی حکومت ہے اس لیے بی جے پی ریاست میں حکومت مخالف لہر پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن وزیر اعلیٰ سدھارمیا نے عوام میں اپنی اچھی شبیہ بنا رکھی ہے۔ 10 سال بعد پھر سے اقتدار میں آنے کا دعویٰ کر رہے امت شاہ نے تو گجرات کی طرح کرناٹک میں بھی 150 سیٹوں کا نشانہ طے کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ریاست میں ووٹوں کو پولرائز کرنے کے مقصد سے اننت کمار ہیگڑے نے آئین کو بدلنے کا بیان بھی دے دیا اور ممبر پارلیمنٹ شوبھا کراندلاجے نے ’جہادی‘ والا بھڑکاؤ ٹوئٹ بھی کر دیا۔ لیکن یہ دونوں ہی پانسے الٹے پڑ گئے۔ ناقدین اس طرح کی حرکتوں کو بی جے پی کی ’اعلیٰ ذات والی ذہنیت‘ قرار دے رہے ہیں جو پارٹی کے لیے زبردست دھچکا ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ہیگڑے کا بیان کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کے لیے کافی ہے کیونکہ 2015 میں بہار اسمبلی انتخابات کے وقت آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا ریزرویشن والا بیان بھی کچھ ایسا ہی تھا جس نے بی جےپی کو بے انتہا نقصان پہنچایا تھا۔

چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان اسمبلیوں کی مدت کار حالانکہ جنوری 2019 میں ختم ہونی ہے لیکن یہاں انتخابات دسمبر میں ہی کرائے جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں تو پارٹی پندرہ پندرہ سالوں سے برسراقتدار ہے۔ یہ تین وہ ریاستیں ہیں جہاں کانگریس اپوزیشن میں ہے۔ جب نریندر مودی اور امت شاہ کے گجرات میں کانگریس اپنی موجودگی مضبوطی کے ساتھ درج کرا سکتی ہے تو پھر رمن سنگھ، شیو راج چوہان اور وسندھرا راجے سندھیا کی ریاستوں میں اس کی کارکردگی پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے بھی ان ریاستوں میں کسان اور نوجوان دونوں ہی پریشان ہیں۔ حکومت مخالف لہر کا فائدہ کانگریس کو ملنا یقینی ہے۔ ویسے بھی راہل گاندھی نے گجرات میں جو تیور دکھائے اس نے کانگریس کو ایک نئی طاقت عطا کی ہے، اب تو وہ پارٹی صدر بھی بن چکے ہیں۔ اس کا اثر بھی اسمبلی انتخابات پر پڑنا طے ہے۔ بی جے پی کے لیے مصیبت یہ ہے کہ جہاں راجستھان کے کسان فروری سے تحریک چلانے کے لیے پرعزم ہیں وہیں مدھیہ پردیش کے کسان فصل کی مناسب قیمت نہیں ملنے سے ناراض ہیں۔ چھتیس گڑھ کی حالت بھی ان دونوں ریاستوں سے بہت الگ نہیں ہے۔ کسانوں کی خودکشی کی خبریں تو ہمیشہ ہی سننے کو ملتی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو نوجوانوں کے ساتھ ہے جو روزگار کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے لیکن ملکی سطح پر دن بہ دن بے روزگاری میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں... اپنے بھی خفا ہیں مجھ سے بے گانے بھی ناخوش

جہاں تک شمال مشرق کی چار ریاستوں میگھالیہ، تریپورہ، ناگالینڈ اور میزورم کا سوال ہے، ان میں سے تین ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار مارچ 2018 میں ختم ہو رہی ہیں جب کہ میزورم کی مدت کار دسمبر 2018 تک ہے۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کی گرفت بالکل بھی نہیں ہے۔ میگھالیہ اور میزورم میں تو کانگریس برسراقتدار بھی ہے اور 2018 انتخابات میں اس کی پوزیشن مضبوط بھی ہے۔ بی جے پی ان شمال مشرقی ریاستوں میں صرف اس لیے اپنا پورا زور لگائے گی تاکہ ’کانگریس مُکت بھارت‘ کا اپنا خواب شرمندۂ تعبیر کر سکے۔ لیکن میگھالیہ میں 2، تریپورہ میں 7، ناگالینڈ میں چار اور میزورم میں صفر ممبران اسمبلی رکھنے والی بی جے پی کے لیے یہ خواب ہنوز شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

2018 میں بی جے پی کے لیے سب سے بڑی پریشانی کانگریس صدر راہل گاندھی کی نئی ٹیم ہے جو مودی بریگیڈ کے ہر جھوٹ کوعوام کے سامنے پردہ فاش کر رہی ہے اور مرکزی حکومت کی ہر پالیسی میں موجود خامیوں کو منظر عام پر لا رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ملکی اور ریاستی دونوں سطح پر کانگریس نے بی جے پی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ معیشت کی بدحالی ہو یا خارجہ پالیسی، ہندوتوا ایجنڈا ہو یا دیہی عوام کو نظر انداز کیا جانا، ہر ایشو پر کانگریس مودی بریگیڈ کو نشانہ بنا رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی یا ان کی ٹیم کسی بات پر صفائی بھی پیش نہیں کر رہی۔ اس پر طرّہ یہ کہ بی جے پی لیڈران متنازعہ بیان دے رہے ہیں اور مخالفین کے لیے ناشائستہ جملوں کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ یقیناً مہذب اور باشعور لوگ اس سے متنفر ہوں گے۔ ایک طرف جہاں 2018 میں بی جے پی خصوصاً مودی اپنی شاخ بچانے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آئیں گے وہیں کانگریس کے لیے ایک بہترین موقع ہے جب 2019 اسمبلی انتخابات سے قبل وہ ملک کی سیاسی فضا کو اپنی طرف موڑ لیں۔ نریندر مودی اور امت شاہ نے جس طرح گجرات میں انتخابات جیتنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کیے، اسے دیکھ کر کانگریس کے لیے یہ سب بہت آسان نظر نہیں آتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کو کسی بھی صورت میں نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔