اپنے بھی خفا ہیں مجھ سے بے گانے بھی ناخوش

Getty Images
Getty Images
user

تنویر احمد

وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 میں بی جے پی کو برسراقتدار لانے کے بعد جس طرح کے فیصلے لیے اس سے ان کی جو شبیہ بنی تھی وہ کسی ’سپر مین‘ سے کم نہیں تھی۔ ان کا کوئی بھی فیصلہ ہو، چہار جانب سے تعریف ہوتی رہی اور ان کے خلاف آواز اٹھانے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اپوزیشن اس قدر کمزور تھی کہ اس کی آواز ’بلند‘ ہونے سے پہلے ہی دبا دی جاتی رہی۔ نوٹ بندی کا فیصلہ ہو یا جی ایس ٹی کا، اقتصادیات سے متعلق پالیسی ہو یا بے روزگاری ختم کرنے سے متعلق پالیسی، گنگا صفائی کا معاملہ ہو یا جرائم پر قابو پانے کا، مودی حکومت نے جس بھی شعبہ میں کچھ اچھا کرنے کی کوشش کی، نتیجہ منفی ہی سامنے آیا۔ لیکن ’ہر ہر مودی، گھر گھر مودی‘ کے نشہ میں شرابور لوگوں کو مودی کے ہر فیصلے میں خوبی ہی نظر آئی اور اگر کسی شعبہ میں نقصان کی خبر ملی تو مودی نے سیدھے کہہ دیا کہ ’’70 سال کی خراب حکمرانی کا اثر ختم ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘ انتخابات سے قبل کیے گئے ان کے وعدوں کو تو ’جملہ‘ سمجھ کر فراموش ہی کر دیجیے، سرکار بننے کے بعد کیے گئے وعدے بھی وفا ہونے کی راہ تکتے تکتے شاید نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

سرکار نے کچھ کام کیا ہو یا نہ کیا ہو، تعریفیں ہوتی رہیں۔ مودی بھکت مودی کا نغمہ سرائی کر کے خوش ہوتے رہے اور مودی اپنی واہ واہی سن کر۔ بی جے پی کے سینئر لیڈران کو تو پہلے ہی کنارے کر دیا گیا تھا اس لیے کوئی رہنمائی کرنے والا بھی نہیں رہا۔ کسی نے کچھ کہا بھی تو انھیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا گیا کہ ’آپ ریٹائر ہو گئے ہیں‘۔ لیکن ایسا کب تک ہوتا، اب ماحول بدل گیا ہے۔ بے گانے تو ناخوش تھے ہی، اب اپنے بھی خفگی کا کھل کر اظہار کرنے لگے ہیں۔ پہلے مدھم اٹھنے والی آوازیں اب تیز ہوا کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور اگر یہ طوفان بن گیا تو مودی کے ’مشن 2019‘ کو اس کی نذر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

جہاں تک مودی کے خلاف ان کے اپنے لوگوں کے ذریعہ آواز اٹھانے کی بات ہے تو یشونت سنہا اور ورون گاندھی ہی نہیں شتروگھن سنہا، ارون شوری، اُدھو ٹھاکرے اور گوونداچاریہ وغیرہ کئی ایسے نام ہیں جو ان کی اب تک کارکردگی کو کٹہرے میں کھڑا کر چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ سبھی نام ایسے ہیں جن سے مودی کا رشتہ گزشتہ دنوں کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ ان حضرات نے مودی حکومت کے خلاف جو بھی باتیں کہی ہیں وہ مبنی برحقیقت ہیں۔

اس وقت ملک کی معیشت سب سے زیادہ فکر کا باعث ہے جو لگاتار زوال پذیر ہے۔ اس بات سے قطعی انکار ممکن نہیں ہے کہ معاشی حالت بگڑنے سے ملک کی ترقی پر زبردست بریک لگ رہا ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں کئی ماہرین معیشت نے حکومت کو خبردار کیا ہے اور مختلف کمپنیوں کے سروے میں مشکل وقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس لیے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تو صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جب سب چیزیں عیاں ہو چکی ہیں تو مودی اپنوں کو کب تک خاموش رکھ سکیں گے۔ آج دو، چار، چھ لوگ بول رہے ہیں... آئندہ دنوں میں یہ تعداد یقینا بڑھے گی۔ تقریباً تین مہینے پہلے کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’’بادشاہ ’پوری طرح ننگے‘ ہو چکے ہیں، لیکن آس پاس کسی کی ہمت نہیں ہے کہ انھیں اس بارے میں بتا سکیں۔‘‘ اب جب کہ وزیر اعظم کے چند ’اپنوں‘ نے ہمت جٹائی ہے تو اسے انھیں مثبت شکل میں لینا چاہیے۔

حالانکہ نریندر مودی کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ انھیں اگر کوئی مشورہ بھی دے تو وہ برا مان جائیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ ’اپنوں‘ کے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے اور اپنی ’حکمرانی‘ کا محاسبہ کرتے۔ لیکن انھیں تو ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے ان پر غلط الزام عائد کر دیا ہو۔ معیشت زوال پذیر ہے تو انھیں اس بات کا اعتراف کرنا ہی ہوگا، معیار تعلیم میں ابتری پیدا ہوئی تو انھیں ماننا ہی پڑے گا، بے روزگاری بڑھی ہے تو اس بات کو سمجھنا ہی ہوگا۔ یہ سب الزامات نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ ورون گاندھی نے اگر روہنگیا معاملے پر اپنے مضمون میں یہ لکھ دیا کہ غریب اور مفلوک الحال مسلمانوں کو ہندوستان میں پناہ دینی چاہیے تو ساتھ میں یہ بھی تو لکھا کہ پناہ دینے سے پہلے یہ تحقیق کر لیا جانا چاہیے کہ ان سے ملک کو کوئی خطرہ تو نہیں۔ انھوں نے ایسا کیا برا لکھ دیا کہ بی جے پی لیڈران اسے اپنے آقا کی بے عزتی تصور کر بیٹھے۔ یشونت سنہا کا معاملہ بھی کچھ ایساہی ہے۔ پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، اقتصادی حالت دگر گوں ہے لیکن اپنی ہی پارٹی میں کوئی اُن کی نہیں سن رہا تووہ مجبوراً ’اب مجھے بولنا پڑے گا‘ (I need to speak now) کے عنوان سے مضمون لکھیں گے ہی۔ وزیر اعظم کو سمجھنا چاہیے کہ اگر اتوار کے روز ’اپنے من کی بات‘ کہتے ہیں تو پیر، منگل، بدھ، جمعرات، جمعہ یا سنیچر کے روز ’اپنے لوگوں کے من کی بات‘ سننا کوئی گناہ نہیں۔

بی جے پی کے برسراقتدار آئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے، 2019 کے عام انتخابات کے لیے تیاریاں ابھی سے شروع ہو چکی ہیں۔ اگر اَب بھی مودی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ’ہٹلر‘ کی طرح حکومت کر کے کامیابی حاصل کر لیں گے، تو یہ خرگوش کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اپوزیشن نے خود کو مضبوط بنانا شروع کر دیا ہے۔ راہل گاندھی نے بھی اپنی سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے۔ گجرات سمیت کچھ ریاستوں میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور حالات بی جے پی کے لیے سازگار نظر نہیں آ رہے ہیں۔لو جہاد اور رام مندر جیسے ایشوز کی حقیقت عوام جان چکی ہے اس لیے ہندو کارڈ کا بھی فائدہ بہت زیادہ نہیں پہنچنے والا۔ اگر اَب بھی مثبت سوچ اور مثبت عمل کے ساتھ ملک کی ترقی کے لیے نریندر مودی نے کام نہیں کیا تو 2019 انتخابات قریب آتے آتے ان کےاپنے اور خاص لوگ غیروں کی قطار میں کھڑے نظر آئیں گے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Sep 2017, 7:55 PM