پرنب مکھرجی کا ناگپور دورہ ’فاشسٹ ہندو راشٹر‘ کو صحیح تصور کرنے کے مترادف

آر ایس ایس صدر دفتر میں پرنب مکھرجی نے جو تقریر کی وہ سنی سنائی ہوئی، اسکولی کتاب کی طرح اور بے معنی تھی۔ وہ ماضی کی تعریفوں سے بھری ہوئی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اجے سنگھ

ناگپور میں گزشتہ 7 جون 2018 کو آر ایس ایس کے صدر دفتر میں تقریر کر کے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے فاشسٹ ہندو راشٹر کے تصور کو ایک طرح سے منظوری دے دی ہے۔ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانا ہی آر ایس ایس کا آخری مقصد ہے اور وہ اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ تازندگی کانگریسی رہے پرنب مکھرجی کے ناگپور دورہ کی کانگریس نے آفیشیل مخالفت نہیں کی، انھیں جانے سے نہیں روکا اور نہ ہی کسی بڑی کارروائی کا اشارہ دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس کی قیادت کو اس دورہ سے دقت نہیں تھی بلکہ متفق تھی۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آر ایس ایس سے کانگریس کا کھٹا میٹھا رشتہ لیکن خیر سگالی کا رشتہ برقرار ہے۔ یہ رشتہ 1925 سے ہے جب سے آر ایس ایس کا قیام ہوا ہے۔

اگر کسی کو اندیشہ رہا ہو کہ پرنب مکھرجی کا ناگپور دورہ ہندو راشٹر کے تصور سے جڑا نہیں ہے تو یہ اندیشہ بھی خود سابق صدر جمہوریہ نے دور کر دیا۔ اسی دن وہ ناگپور میں آر ایس ایس کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کے گھر گئے، ان کی تصویر پر گلپوشی کی اور انھیں ’بھارت ماتا‘ کا عظیم بیٹا قرار دیا۔ اگر ہیڈگیوار، بقول کانگریسی پرنب بھارت ماتا کا عظیم بیٹا ہے تو ظاہر ہے ان کے ذریعہ تشکیل تنظیم آر ایس ایس بھی ’بھارت ماتا‘ کی عظیم تنظیم ہے جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

یاد رہے کہ ہیڈگیوار ہندوستان کو برابر ’ہندو استھان‘ کہتے رہے اور اسے ’ہندوؤں کا ملک‘ بتاتے رہے۔ 1931 میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر ان کا تبصرہ تھا کہ جیل جانا، پھانسی چڑھنا حب الوطنی نہیں، چھچھوری حرکت ہے۔ مسلمانوں سے متعلق ان کے مخالف اور قابل اعتراض بیانات سے لوگ واقف رہے ہیں۔

لوگوں کو شاید یاد ہو کہ کچھ سال پہلے جب شیو سینا لیڈر بال ٹھاکرے کی موت ہوئی تھی جب پرنب مکھرجی نے، جو اس وقت ملک کے صدر جمہوریہ تھے، کچھ اسی طرح ٹھاکرے کے بارے میں کہا تھا ’’ملک ایک سینئر لیڈر سے محروم ہو گیا ہے جو عام شخص کے لیے کام کرتے تھے اور جن کے میڈیا میں تعاون نے سیاسی شعور کو ایک الگ سمت عطا کی۔‘‘ اس طرح ہیڈگیوار کے بارے میں ان کے بیان کو دیکھا جا سکتا ہے۔

آر ایس ایس صدر دفتر میں پرنب مکھرجی نے جو تقریر کی وہ سنی سنائی ہوئی، اسکولی کتاب کی طرح اور بے معنی تھی۔ وہ ماضی کی تعریفوں سے بھری ہوئی تھی، ہندوستان کی عظمت، کثرت میں وحدت، صبر، مذہبی جمہوریت وغیرہ کی تعریف۔ ہندوستان میں صدیوں سے جو تنظیموں کے ذریعہ منظم تشدد اور نابرابری رہی ہے، جسے حکمراں طبقہ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت ملتی رہی ہے، اس سے متعلق تقریر میں خاموشی تھی۔ طویل مدت سے ملک میں ذاتی، طبقاتی، جنسی، مذہبی استحصال چلتا چلا آ رہا ہے جسے کاسٹ سسٹم اور برہمن واد سے توانائی ملتی رہی ہے اور آر ایس ایس اسے برابر شہ دیتا رہا ہے۔ تقریر میں ان سب باتوں پر ایک لفظ بھی نہیں سننے کو ملا۔ اور اب دلت، مسلمان، قبائلی، عیسائی دیگر محروم گروپ اس تشدد و استحصال کے سب سے زیادہ شکار ہیں لیکن پرنب کی تقریر میں ان کا تذکرہ نہیں تھا۔

اس سے تشدد اور ظلم کو ختم کرنے کے لیے بھیم راؤ امبیڈکر و بھگت سنگھ نے جو راستہ دکھایا تھا، پرنب مکھرجی کی تقریر میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ امبیڈکر اور بھگت سنگھ کا ذکر بھی نہیں ہے۔ نئے ہندوستان کا خواب صرف گاندھی اور نہرو نے ہی نہیں دیکھا تھا، امبیڈکر اور بھگت سنگھ نے بھی دیکھا تھا۔ اگر آپ تنوع کی بات کرتے ہیں تو ان سب کے بارے میں بات کیجیے جو اپنے اپنے ڈھنگ سے نئے ہندوستان کی دریافت کرتے رہے ہیں۔ پرنب نے اپنی تقریر میں ایک نئے جملے کا استعمال کیا ہے اور وہ ہے آئینی حب الوطنی۔ اس جملے کے ذریعہ پرنب ’غیر سہولت‘ والی بحثوں کو فکر و تدبر کے دائرے سے باہر کر دیتے ہیں۔

پرنب کی تقریر میں ’گھر واپسی‘، ’لو جہاد‘، گائے سے متعلق دہشت گردی کے ذریعہ جگہ جگہ مسلمانوں کا قتل، اونا اور سہارنپور میں دلتوں پر مظالم، روہت ویمولا کی خودکشی، کٹھوا اور اُناؤ میں عصمت دری، کنن-پوش پورا میں کئی کشمیری مسلم خواتین سے ہندوستانی فوجیوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری، بابری مسجد انہدام، گجرات میں 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام، 1984 میں سکھوں کا قتل عام، ایک ہندوتوا دہشت گرد کے ہاتھوں موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل جیسے ایشوز سرے سے غائب تھے۔

ان کی تقریر میں ’ایک راشٹر، ایک قانون، ایک پرچم‘ پر زور تھا اور ’ایک حب الوطنی‘ کی تعریف تھی۔ یہی ہندوتوا کا نظریہ اور سیاست ہے۔ یہی آر ایس ایس کا نقطہ نظر ہے۔ ناگپور بھگوا دفتر میں ملک کے سابق صدر جمہوریہ کے پہنچنے پر سب سے زیادہ خوشی آر ایس ایس اور اس کے مکھیا موہن بھاگوت کو ہوئی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ سینئر کانگریسی کو اپنے یہاں بلا کر ایک اور قلع فتح کر لیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔