احمد پٹیل: ایک ایسا جنگجو جس کے ناقد تو بے شمار تھے، لیکن دشمن کوئی نہیں... شاہد صدیقی

احمد بھائی اپنی شبینہ سیاسی میٹنگوں کے لیے مشہور تھے، جس میں وہ حامیوں اور مخالفین دونوں سے ملتے تھے۔ وہ ایک ایسے سیاسی شخص تھے جو چوبیسوں گھنٹے صرف کانگریس کے بارے میں سوچتے تھے۔

احمد پٹیل کی فائل تصویر (آئی اے این ایس)
احمد پٹیل کی فائل تصویر (آئی اے این ایس)
user

شاہد صدیقی

احمد بھائی (احمد پٹیل) سے میری ملاقات ایک صحافی کے ناطے 1980 میں ہوئی تھی۔ وہ عام طور پر میڈیا وغیرہ سے دور رہتے تھے، لیکن میں نے انھیں کسی طرح اپنے ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ کے لیے انٹرویو دینے کے لیے رضامند کر لیا تھا۔ مشکل سے مشکل سوال کا بھی انھوں نے بہت ہی نپا تُلا جواب دیا تھا جس سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کے بعد میری ملاقاتیں ان سے ہوتی رہیں اور گزشتہ تقریباً 35 سال کے دوران میری ان سے ایک طرح کی دوستی ہو گئی تھی۔

دہلی میں دوسرے لیڈروں سے جو بات انھیں علیحدہ کرتی تھی، وہ تھی ان کی ایمانداری اور نہ صرف کانگریس کو لے کر بلکہ عوامی زندگی میں اخلاقی اقدار کو لے کر ان کی خودسپردگی۔ بہت سے لیڈر اپنے نجی مفادات کو پارٹی سے اوپر رکھتے ہیں، لیکن احمد بھائی نے پارٹی کو اپنی سیاسی اور نجی زندگی سے ہمیشہ اوپر رکھا۔


جدید دور میں احمد پٹیل کانگریس کے سب سے قابل لیڈروں میں سے ایک تھے۔ خاص طور سے ان لیڈروں کے بعد جنھیں اندرا گاندھی نے تیار کیا تھا۔ نرسمہا راؤ کے دور کے بعد کانگریس بکھری ہوئی حالت میں پہنچ چکی تھی اور این ڈی اے عروج پر تھا، ایسے میں کانگریس کا مستقبل بالکل تاریک نظر آ رہا تھا۔ ایسے وقت میں دوسرے لیڈروں کے ساتھ احمد پٹیل کی خودسپردگی اور کرشمے کی طاقت پر ہی یو پی اے کی تشکیل ہوئی، جس کی قیادت کانگریس کے ہاتھوں میں رہی۔ نتیجتاً 2004 میں کانگریس کی قیادت میں مرکز میں کانگریس کی واپسی ہوئی۔

سیاسی رشتوں کی باریکیوں اور اپنی نرم روی کے سبب وہ سب کی سنتے تھے اور پھر کانگریس صدر سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بالکل پریکٹیکل مشورے دیتے تھے۔ اسی کے سبب کانگریس کی قیادت میں یو پی اے نے ایک بار پھر 2009 میں کہیں زیادہ اچھے ریزلٹ کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی تھی۔


کئی بار ایسے مواقع آئے جب تقریباً دو درجن سے زیادہ پارٹیوں والا یو پی اے ٹوٹ کے دہانے پر پہنچا، لیکن احمد بھائی کی لوگوں کو منانے کی قابلیت نے ہر بار بحران سے باہر نکال لیا۔ سیاسی تجزیہ نگار انھیں سونیا گاندھی کے لیے مشکل کشا کہتے تھے، لیکن میری نظر میں وہ کانگریس کے ایک جنگجو تھے۔

بابری مسجد انہدام کے ایک دن بعد، یعنی 7 دسمبر 1992 کو میں نے کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ میں اس وقت آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا رکن ہونے کے ساتھ ہی ایک ایسی کمیٹی کا بھی رکن تھا جس میں پرنب مکھرجی، منموہن سنگھ، کے آر نارائنن وغیرہ تھے۔ اس کمیٹی کو پمفلٹ کمیٹی کہا جاتا تھا۔ میرا استعفیٰ پہنچتے ہی احمد بھائی دوڑے دوڑے میرے گھر آئے اور کہا کہ اگر تم استعفیٰ دو گے تو میں بھی استعفیٰ دے دوں گا۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اگر تم جیسے مسلم کانگریس سے استعفیٰ دے دیں گے تو ایسے میں کیا ہم سیکولرزم کی حفاظت کریں گے یا اسے نقصان پہنچائیں گے؟ آخر کار ہرکشن سنگھ سرجیت (جنھیں میں اپنا سیاسی گرو مانتا تھا) کے کہنے پر میں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔ بہت بعد میں مجھے پتہ چلا کہ احمد بھائی نے کامریڈ سرجیت کو فون کر کے کہا تھا کہ وہ مجھے کانگریس سے استعفیٰ دینے سے روکیں۔


احمد بھائی اپنی شبینہ سیاسی میٹنگوں کے لیے مشہور تھے۔ جب وہ اپنے حامیوں اور مخالفین دونوں کو صلاح اور جانکاریوں کے لیے مدعو کرتے تھے۔ انھیں کھانے کا بہت شوق تھا اور کئی بار اچانک ان کا فون آتا تھا اور وہ کہتے تھے ’’یار کیا کچھ کباب کھانے تمھارے گھر آ جاؤں۔‘‘ وہ ہمیشہ بغیر کسی تام جھام کے تنہا آتے تھے۔ نصف رات تک بات چیت اور گپ شپ چلتی رہتی تھی۔ وہ ایک ایسے سیاسی شخص تھے جو چوبیسوں گھنٹے صرف کانگریس کے بارے میں سوچتے تھے اور کبھی اپنے کسی بھی کٹر سیاسی مخالف کا برا نہیں چاہتے تھے۔

احمد بھائی سونیا گاندھی کے اُن دنوں میں آنکھ-کان تھے، جب وہ اپنے کانگریس صدر کے سب سے اہم دور میں تھیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سونیا گاندھی کی اہلیت سے ہی کانگریس ایک بار پھر بڑی سیاسی قوت کی شکل میں نمودار ہوئی تھی، لیکن اس میں احمد بھائی کا کردار بھی اہم تھا جنھوں نے پارٹی کے مفادات کے لیے جب بھی ضرورت پڑی تو اپنے نجی رشتوں کی قربانی دی۔ وہ ایسے سیاستداں تھے جن کے بے شمار ناقد اور مخالف تو تھے، لیکن کوئی دشمن نہیں تھا۔ یہاں تک کہ کانگریس کے کٹر مخالف بھی بھروسے کے ساتھ احمد بھائی سے بات کر سکتے تھے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ ان کے بھروسے کو احمد بھائی کبھی نہیں توڑیں گے۔


کانگریس میں احمد پٹیل کا کوئی متبادل نہیں ہے، خاص طور سے ایسے وقت میں جب پارٹی کو ان کی سخت ضرورت ہے۔ ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم میں ان کے تعاون کو نہیں بھلایا جا سکتا۔ ایسے وقت میں جب ہر پارٹی کے لیڈر اور سیاسی پارٹیوں کی ساکھ عام لوگوں کی نظر میں کم ہو رہی ہے، احمد پٹیل کو لوگ ایک جذباتی، عاجزانہ اور مثبت سوچ والے لیڈر کے طور پر یاد کریں گے۔

(مضمون نگار اخبار ’نئی دنیا‘ کے مدیر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔