کیجریوال کا ’سیاسی دھرمانترن‘... سہیل انجم

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ کیجری کا یہ ”سیاسی دھرمانترن“ محض ووٹ کی حصولیابی کے لیے ہے۔ لیکن یہ ایسا غلط اور ناپسندیدہ قدم ہے کہ اس سے ہندوستانی سیاست کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال / ویڈیو گریب
وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال / ویڈیو گریب
user

سہیل انجم

تقریباً دس سال قبل جب آر ایس ایس کی سرپرستی میں اور انّا ہزارے کی قیادت میں اس وقت کی یو پی اے حکومت کے خلاف ایک مہم شروع ہوئی تھی تو اس کے شکم سے ایک سیاسی نسل نے جنم لیا تھا جس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا تھا۔ وہ مہم سچی تھی یا جھوٹی اور یو پی اے حکومت کے خلاف جو الزامات لگائے گئے تھے وہ حقیقت پر مبنی تھے یا بے بنیاد تھے، یہ الگ قصہ ہے، اس پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔ فی الحال اس نئی نسل کے سلسلے میں اظہار خیال کرنا ہے جس کے سربراہ اروند کیجریوال نامی ایک شخص تھے۔ انھوں نے اس مہم کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی ”عام آدمی پارٹی“ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے اس پارٹی کے قیام کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی اور اعلان کیا تھا کہ وہ ہندوستانی سیاست کا چہرہ بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ اب تک کی بے ایمان سیاست کے بالمقابل ایک ایماندار سیاست کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے جن عزائم کا اظہار کیا تھا ان کا بڑے پیمانے پر استقبال ہوا تھا اور ان کے کارواں میں ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور وہ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے جو ملک میں صاف ستھری سیاست چاہتے ہیں۔

اسمبلی انتخابات ہوئے اور کیجریوال کی پارٹی نے دہلی میں حکومت قائم کی۔ لیکن پھر انھوں نے ایک معاملے پر استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ انتخابات ہوئے تو ان کی پارٹی کو بے مثال کامیابی حاصل ہو گئی۔ پانچ سال کے بعد پھر عوام نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا اور پھر اس کی حکومت بنی۔ لیکن اس دوسری مدت میں کیجریوال کی سیاست نے اپنا رخ بدلنا شروع کیا اور پھر رفتہ رفتہ انھوں نے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے پر قبضے کی کوشش میں ہندوتوا کا راستہ اختیار کر لیا۔ اس دوران ان کی حکومت نے سیکولر طبقات اور مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہونے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سی اے اے کے خلاف تحریک چلی تو اس پر خاموشی اختیار کی۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد ہی دہلی میں فساد پھوٹ پڑا اور مسلمانوں کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ لیکن کیجریوال کی حکومت نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔


البتہ اس دوران انھوں نے ہندوؤں کے ایک طبقے کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنے شروع کیے جو بی جے پی والوں نے اپنے لیے مخصوص کر رکھے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے فروری 2020 میں خود کو کٹر ہنومان بھگت بتایا۔ ایک پروگرام میں ہنومان چالیسہ بھی پڑھ کر سنایا۔ مارچ 2021 میں انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام طلبہ پکے دیش بھگت بن جائیں۔ انہوں نے دہلی اسمبلی میں اعلان کیا کہ ان کی حکومت دہلی میں رام راج قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے متعدد بار یہ اعلان کیا کہ جب ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو وہ معمر شہریوں کو مفت میں رام مندر کے درشن کرائیں گے۔ گجرات میں بھی انھوں نے یہ اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے 2021 میں دہلی کے ایک اسٹیڈیم میں بڑے پیمانے پر دیوالی کا تہوار منایا تھا۔ انہوں نے گجرات میں اعلان کیا ہے کہ ان کا جنم کرشن جی کے یومِ پیدائش پر ہوا تھا اور بھگوان نے کنس روپی سیاست دانوں کو مارنے کے لیے انھیں بھیجا ہے۔

لیکن اب انھوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر وزیر اعظم سے مطالبہ کر ڈالا کہ ہندوستانی نوٹ کی قدر گرنے سے روکنے اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کرنسی پر لکشمی دیوی اور گنیش دیوتا کی تصویر چھاپی جائے۔ پہلے انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا اور پھر اس سلسلے میں وزیر اعظم کے نام ایک مکتوب بھی لکھ ڈالا۔ ان کا کہنا ہے کہ کرنسی پر دیوی دیوتاؤں کی تصویر چھاپنے سے ملک کے عوام کو معیشت کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ان دیوی دیوتاؤں کا آشیرواد حاصل ہوگا۔ خیال رہے کہ ہندو مذہب کے مطابق لکشمی دھن دولت اور خوش حالی کی دیوی ہیں جبکہ گنیش پریشانیوں کو دور کرنے والے دیوتا ہیں۔ کیجریوال کے مطابق اب تک معیشت کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دیوی دیوتاؤں کا آشیرواد لینا چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں کی جانب سے اعتراض کے اندیشے کے پیش نظر کہا کہ 85 فی صد مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا نے بھی اپنی کرنسی پر گنیش کی تصویر چھاپی ہے حالانکہ وہاں دو فی صد سے بھی کم ہندو ہیں۔


ان کے اس اعلان پر سب سے زیادہ بی جے پی نے ہنگامہ کھڑا کیا ہے۔ دراصل بی جے پی کو اندیشہ ہے کہ اس طرح کیجریوال اس کے ایجنڈے کی چوری کر رہے ہیں اور اگر ان کا یہ مطالبہ عوام کو بھا گیا تو اس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ اس کے ووٹ عام آدمی پارٹی کی جھولی میں جا گریں گے۔ بہر حال یہ معاملہ اپنی جگہ پر ہے کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ لیکن کیجریوال کے اس پلٹی مارنے سے ان لوگوں کو بہت مایوسی ہوئی ہے جو ملک میں صاف ستھری سیاست دیکھنے کے خواہش مند تھے اور جو یہ سمجھتے تھے کہ کیجریوال ایک الگ قسم کی سیاست کی بنا ڈالیں گے۔

اب ایسے تمام لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیجریوال نے جو کہ خود کو سیکولر سیاست داں ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے محض ووٹ کی خاطر ہندوتوا کی سیاست کو اختیار کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں عام آدمی پارٹی کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ان کے ساتھ رہے لوگوں نے بھی اس بارے میں کیجریوال کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی معیشت انتہائی زوال کی شکار ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ حکومت کچھ کر پانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کہتی ہیں کہ روپیہ کمزور نہیں ہو رہا ہے بلکہ ڈالر مضبوط ہو رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا نوٹوں پر دیوی دیوتاؤں کی تصویر چھاپنے سے کرنسی کا گرنا بند ہو جائے گا۔


ان کے ابتدائی دنوں کے ساتھی آشوتوش نے، جو کہ سیاست کو ترک کرکے پھر میڈیا میں آگئے ہیں کہتے ہیں کہ جنوری 2014 میں جب میں نے عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا تھا۔ آج مجھے سکون محسوس ہوتا ہے کہ میں اب اس کے ساتھ نہیں ہوں۔ اس پارٹی کو ایک انقلابی قوت کے طور پر دیکھا گیا تھا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیاست میں سیاست کھیلنے کے لیے نہیں بلکہ سیاست کو بدلنے کے لیے ہے۔ آج یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ وہی جماعت ہے۔ آج اس کا چہرہ بدل گیا ہے۔ پارٹی نے فخر سے کہا تھا کہ اس نے 2013 کے دہلی اسمبلی انتخابات میں ذات، مذہب، علاقہ، جنس یا زبان کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب نہیں کیا۔ بلکہ امیدواروں کے انتخاب کے لیے دیانتداری، ایمانداری اور اچھا کردار ہی واحد خصوصیات ہیں۔ ٹکٹ دینے سے پہلے ممکنہ امیدوار کے پس منظر کی مکمل جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

وہ اپنے مضمون کے آخر میں کہتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ ہندو دیوتاؤں کی تصویر سے ووٹ حاصل ہوگا۔ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ وہی اروند کیجریوال نہیں ہیں جنہیں میں جانتا تھا، جو ہندوستانی سیاست کو اس کی تمام برائیوں سے پاک کرنے کی بات کرتا تھا۔ ان کی ہندوتوا میں تبدیلی کو چند لوگوں نے مودی سے جیتنے کا فارمولہ چھیننے کی کوشش کے طور پر دیکھا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ امید پیدا کرنے والی ایک جماعت نے مذہب کو سیاست کے ساتھ ملانے کا خطرناک راستہ کیوں اختیار کیا۔ الیکشن جیتنا اور ہارنا جمہوری عمل کا حصہ ہے لیکن وہ پارٹی جس امید کی نمائندگی کرتی تھی اس کی موت افسوسناک ہے۔


بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ کیجری کا یہ ”سیاسی دھرمانترن“ محض ووٹ کی حصولیابی کے لیے ہے۔ لیکن یہ ایسا غلط اور ناپسندیدہ قدم ہے کہ اس سے ہندوستانی سیاست کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */