ساحر لدھیانوی: ’میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا‘

گھر کے خراب ماحول کے علاوہ ساحر جس طرح کے سماجی معاشرے سے دوچار تھے، ان حالات نے اور اسکول و کالج کے ماحول نے ان کی شخصیت سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔

تصویر ویکیپیڈیا 
تصویر ویکیپیڈیا
user

علی جاوید

آج عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کی پیدائش کو پورے سو سال مکمل ہو گئے ہیں ۔ شاعری کے میدان میں اپنے ابتدائی دور سے آخر تک ساحر کے نظریے اور ادبی وابستگی میں کوئی تضاد نہیں اور وہ اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہے ہیں۔ لیکن ان کی ذاتی زندگی میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے اور عمر کے آخری حصے تک ان تضادات سے گھرے رہے۔ ساحر اپنے والد چودھری فضل محمد کی بارہویں بیوی سردار بیگم کے بطن سے 8 مارچ 1919 کو پیدا ہوئے۔ والد طبیعتاً بہت ہی روایتی زمیندارانہ مزاج رکھتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ان کا رویہ منصفانہ نہیں تھا بلکہ حد تو یہ تھی کہ ساحر کی والدہ سردار بیگم کو اعلانیہ اپنی بیوی ہونے کا درجہ دینے کو بھی تیار نہیں تھے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ساحر کی پیدائش کے بعد اپنا حق پانے کے لیے انھوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان کی والدہ سردار بیگم کی خواہش تھی کہ ساحر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جج یا ڈاکٹر بنیں لیکن والد کی ان کی تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد نرینہ ہیں اس لیے پڑھا لکھا کر نوکری کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ خاندان کے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اتنی بڑی جاگیر کی ذمہ داریاں سنبھالے۔ عیش پسندی اور جاگیردارانہ مزاج کے تحت ساحر کے والد نے کبھی بھی اپنے بیٹے کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔ حد تو یہ کر دی کہ بیٹے کا نام عبدالحئی رکھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ فضل محمد کے پڑوسی کا نام عبدالحئی تھا جس سے ان کے والد کے تعلقات خراب تھے۔ بیٹے کے ساتھ کبھی محبت کے ساتھ پیش نہ آ کر بھدی بھدی گالیوں سے نوازتے کیونکہ اگر پڑوسی اعتراض کرے تو یہ کہہ سکیں کہ میں تو اپنے بیٹے کو گالیاں دے رہا ہوں۔

اپنی عیش پسندی اور گھٹیا زمیندارانہ طبیعت کی وجہ سے گھریلو ماحول خراب سے خراب تر ہوتا گیا اور نتیجتاً ساحر کی والدہ نے اپنے بیٹے کو لے کر باپ سے علیحدگی اختیار کرلی اور بھائیوں کے گھر منتقل ہو گئیں۔ والد کی عیاشی کا سلسلہ جاری رہا اور انھوں نے جائیداد کا ایک بڑا حصہ فروخت کر دیا اور سردار بیگم کے بعد ایک اور شادی رچا لی۔ بکتی ہوئی جائیداد کے مدنظر ساحر کی ماں نے جو عدالتی کارروائی کی تھی وہ مقدمہ اٹھارہ سال تک چلا لیکن وہ کامیاب ہوئیں۔ ان حالات نے ساحر کے مزاج میں جو تلخی پیدا کر دی تھی وہ ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔


مزاج کی اس تلخی کے باوجود ساحر نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور 1937 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1939 میں گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا لیکن چوتھے سال میں لاہور چلے گئے اور دیال سنگھ کالج، لاہور میں داخلہ لے لیا۔ طبیعت میں یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بی اے کی ڈگری پوری نہ کر سکے لیکن لدھیانہ، امرتسر اور لاہور کے علمی، ادبی اور سیاسی ماحول نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ ویسے تو انجمن ترقی پسند مصنّفین کا قیام عمل میں آ چکا تھا اور اس نے پورے ملک کے ادیبوں اور شاعروں کو بڑے پیمانے پر اپنی طرف متوجہ کیا تھا لیکن فیض احمد فیض جیسی شخصیات کی وجہ سے پنجاب میں انجمن کا اثر بہت گہرا پڑا جو نوجوان نسل کے دلوں میں اس قدر گھر بنائی تھی کہ پورا ماحول ترقی پسند خیالات کا گہوارہ بن گیا تھا۔ گھر کے خراب ماحول کے علاوہ ساحر جس طرح کے سماجی معاشرے سے دوچار تھے، ان حالات نے اور اسکول و کالج کے ماحول نے ان کی شخصیت سازی میں نمایاں رول ادا کیا۔ ان کی دلچسپی ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھتی گئیں اور ماحول کے مطابق انھوں نے بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ فیض کے علاوہ سعادت حسن منٹو، باری علیگ، احمد ندیم قاسمی، فکر تونسوی، دیویندر ستیارتھی وغیرہ سے قربت بڑھی جس سے ساحر کی زندگی کا مقصد ہی بدل گیا اور انھوں نے اپنے ذاتی غم اور ناکامیوں کا حل عوامی مسائل کے ساتھ خود کو وابستہ کر دینے میں تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ برطانوی حکومت کی ظلم و تشدد اور مزدوروں کے استحصال کے خلاف مزاحمت کا جذبہ ان میں اس قدر بیدار ہوا کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونا انھوں نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ حالانکہ اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران ان کے ماموں نے انھیں اقبال سے روشناس کروایا جس کے تحت اقبال کی شاعری نے ان پر گہرا اثر چھوڑا تھا لیکن انھوں نے خود کو مسلمانوں کی سیاست تک محدود نہیں کیا اور اقبال کی شاعری و مزدوروں کے استحصال کے خلاف احتجاج کی ذہن سازی نے انھیں بائیں بازو کے سیاسی نظریات سے زیادہ قریب کیا۔

یہاں مختصراً اس بات کا ذکر کر دینا مناسب ہوگا کہ اسکول کی تعلیم کے زمانے سے ہی ساحر نے شعر و شاعری میں دلچسپی لینا شروع کر دیا تھا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ اقبال کی شاعری سے بہت متاثر تھے اور اس دلچسپی کی وجہ سے اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت ان کی نظر اقبال کے ایک شعر پر ٹک گئی جو اس طرح ہے:

اس چمن سے ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی

سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی


کہا جاتا ہے کہ اس شعر سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے تخلص کا انتخاب کیا اور ساحر کے نام سے شعری سفر کو آگے بڑھایا۔ اس نظریاتی وابستگی کے تحت انھوں نے جو نظم کہی اس کے اشعار کچھ اس طرح تھے:

جشن بپا ہے کٹیاؤں میں اونچے ایواں کانپ رہے ہیں

مزدوروں کے بگڑے تیور دیکھ کے سلطاں کانپ رہے ہیں

جاگے ہیں افلاس کے مارے، اٹھے ہیں بے بس دکھیارے

سینوں میں طوفاں کا تلاطم، آنکھوں میں بجلی کے شرارے

شاہی درباروں کے در سے فوجی پہرے ختم ہوئے ہیں

ذاتی جاگیروں کے حق اور مہمل دعوے ختم ہوئے ہیں

اس نظم کا عنوان 'طلوع اشتراکیت' تھا جو ان کے ابتدائی کمٹمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے جاگیردار باپ کا کردار اور حکمراں طبقے کی زیادتیوں کے اثر کے تحت ساحر نے 'جاگیر' نظم کہی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنھوں نے پیہم

اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے

غدر کی ساعت ناپاک سے لے کر اب تک

ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے

سبز کھیتوں میں یہ دبکی ہوئی دوشیزائیں

ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے

نہ صرف مزدوروں اور محنت کش طبقے سے ہمدردی بلکہ مناظر فطرت یعنی پھول پودوں کے علاوہ پرندوں اور جانوروں کے تحت ان کی طبیعت میں جو ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا وہ تاعمر ان کی شخصیت کا حصہ رہا۔ اس کے علاوہ ساحر نے کالج کے زمانے سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس دلچسپی اور مقبولیت کے تحت وہ کالج کی طلباء کی یونین کے سکریٹری اور بعد میں اس کے صدر منتخب ہوئے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ساحر کی شاعری کے مرکز میں ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد اور اشتراکی انقلاب کی عکاسی صاف نظر آتی ہے جو ان کی نظریاتی وابستگی کی ضامن ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ وہ پہلی عالمی جنگ کے چند برس بعد پیدا ہوئے تھے اور جلیاں والا باغ کا دردناک واقعہ ولادت کے فوراً بعد رونما ہوا تھا۔ ساتھ ہی ہندوستان میں گاندھی جی کی قیادت میں جدوجہد آزادی ملک گیر سطح پر اپنے اثرات عوام کے دل و دماغ میں گھر کر چکی تھی لیکن ساتھ ہی مذہبی فرقہ پرستی کا زہر انگریز اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سماج میں گھول چکے تھے، جس نے مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کو جنم دیا تھا۔ ایسے رجحانات نے ساحر کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑے تھے۔ ان حالات کے ساتھ دنیا دوسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی تھی جس نے 1939 سے لے کر 1945 تک ساری دنیا کو نفرت کی آگ میں ڈھکیل دیا تھا۔ ساتھ ہی 1947 میں ہندوستان آزاد ہوا لیکن ملک مذہبی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس کے نتیجہ کے طور پر لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ہزاروں بے گناہ لوگ فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے۔ ان واقعات نے ساحر کے اندر بیٹھے ایک حساس شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان اثرات کے تحت خود ساحر نے اپنی شخصیت پر جو تبصرہ کیا ہے وہ اس طرح ہے:

مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے

مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے

کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو

غریبوں مفلسوں کو، بے کسوں کو، بے سہاروں کو

حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو

تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا

میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا

یا

چار جانب ارتعاشِ رنگ و نور

چار جانب اجنبی بانہوں کے جال

چار جانب خوں فشاں پرچم بلند

میں، مری غیرت، مرا دست سوال

زندگی شرما رہی ہے کیا کروں

اس طرح کے اشعار کی روشنی میں ساحر کی شاعری کا بڑا سطحی تجزیہ کرنے والے تنقید نگاروں نے ان پر فیض کی نقالی کا الزام بھی لگا دیا اور 'معیار بندی' کی بے جا قدغن لگانے کی زیادتی کی جب کہ ان اشعار سے آپ کو ان کی شاعری کی انفرادیت کا احساس بھی ہوگا اور ان فکری بلندی کا احساس بھی۔

قحط بنگال پر لکھی گئی نظم کے ذریعے ساحر نے جس نظریاتی اور شعری صلاحیت کی مثال پیش کی ہے وہ دوسرے شعراء کے یہاں کم نظر آتی ہے:

پچاس لاکھ فسردہ سڑے گلے ڈھانچے

نظامِ زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

ترستی آنکھوں سے دم توڑتی نگاہوں سے

بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں


فیض کی نظم میں 'مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ' پر غور کیجیے اور ساحر کے ان اشعار پر غور کیجیے تو احساس ہوگا کہ انھوں نے فیض کی نقل نہیں بلکہ ان خیالات کو وسعت دی ہے جو ساحر کی انفرادیت کی عکاس ہے:

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں

گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے

تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے

کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں

گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے

اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

ساحر نے شادی نہیں کی۔ کہتے ہیں امرتا پریتم سے پہلی ملاقات کے بعد ہی وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گئی تھیں جو کسی خاطر خواہ انجام تک نہیں پہنچ سکی، اس امر کی ایک جھلک کہیں نہ کہیں مندرجہ بالا اشعار میں محسوس ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے اور جو کچھ بھی امرتا پریتم کی خود نوشت 'رسیدی ٹکٹ' سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے ساحر کی پہلی ملاقات امرتسر کے ایک مشاعرے میں ہوئی اور دونوں کی نگاہوں نے جس طرح ایک دوسرے کو اپنے دلوں میں اتار لیا وہ نقش تاعمر باقی رہا۔ دونوں نے عشق کا اظہار نہیں کیا جیسا کہ روایتی قصے کہانیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ امرتا پریتم کے مطابق ساحر اور ان کے درمیان ایک خاموشی کا رشتہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ساحر ان سے ملنے لاہور آتے تو دوسری کرسی پر خاموش بیٹھ جاتے۔ وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتے جاتے۔ دل کی بے چینی اور جذبات کا یہ عالم ہوتا کہ آدھی سگریٹ پی کر بجھا دیتے اور فوراً دوسری سگریٹ جلا لیتے۔ اس طرح جب رخصت ہوتے تو کمرے میں آدھی بچی ہوئی سگریٹوں کا ایک ڈھیر لگ جاتا جسے وہ بڑے اہتمام سے اپنی آلماری میں رکھ لیتیں اور تنہائی میں ان سگریٹوں کو نکال کر جب اپنی انگلیوں میں پکڑتیں تو انھیں ساحر کی انگلیوں کے لمس اور ان کی قربت کا احساس ہوتا۔ اس عمل نے امرتا پریتم میں سگریٹ نوشی کی عادت ڈال دی تھی۔ امرتا پریتم اس بات کا بھی ذکر کرتی ہیں کہ کافی عرصے بعد ایک بار ساحر نے انھیں بتایا کہ جب ہم دونوں لاہور میں رہتے تھے تو اکثر وہ ان کے گھر کے پاس آ کر ایک کونے میں کھڑے ہو جاتے۔ کبھی پان کی دوکان سے پان لیتے تو کبھی سگریٹ اور کبھی سوڈے کا گلاس ہاتھ میں لے کر وہ ان کے گھر کی کھڑکی کی طرف، جو کھڑکی سڑک کی طرف کھلتی تھی، گھنٹوں اُدھر نہارتے رہتے۔

ساحر سے اپنے تعلقات کو امرتا پریتم نے ایک کہانی کی شکل میں دلّی سے شائع ہونے والے ایک رسالہ 'آئینہ' میں بھی بیان کیا ہے جس کا عنوان انھوں نے 'آخری خط' رکھا تھا۔ شائع ہونے کے کافی عرصے تک ساحر نے اس کہانی کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ایک بار جب اچانک دونوں کا سامنا ہو گیا تو ساحر نے بتایا کہ کہانی پڑھ کر بے انتہا خوش ہوئے اور رسالہ لے کر اپنے دوستوں کو دکھانا چاہا کہ امرتا نے یہ کہانی مجھ پر لکھی ہے، لیکن میں نے خاموشی اختیار کر لی کیونکہ جب خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر کا خیال آیا تو ڈر گیا کیونکہ ان سے جو پھٹکار سننی پڑے گی، اس کا سامنا کیسے کروں گا۔ ساحر اور امرتا پریتم جیسے دو عظیم فنکار ایک دوسرے کو چاہتے ہوئے بھی ایک نہ ہو سکے، اس میں ساحر کی طبیعت میں جو نفسیاتی ہچکچاہٹ تھی اس کا دخل بہت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار جب امرتا پریتم ساحر کے گھر ان کی والدہ سے مل کر گئیں تو ساحر نے اپنی ماں سے کہا کہ ان کا نام امرتا پریتم ہے جو آپ کی بہو بنتے بنتے رہ گئیں، تو ان کی والدہ کا رد عمل تھا کہ کسی کو تو اپناتے جس سے گھر آباد ہوتا۔ گھر تو نہیں آباد ہو سکا، لیکن ایک بار ساحر نے امرتا پریتم کی ہتھیلی پر جو دستخط کیے تھے وہ ان کی ہتھیلی سے ہوتا ہوا ان کی شریانوں میں اتر گیا تھا جسے انھوں نے تاعمر سنجو کر رکھا اور ازدواجی رشتے میں نہ بندھ کر بھی دونوں ایک دوسرے کے رہے۔


جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ساحر کی زندگی میں جتنے اتار چڑھاؤ آئے اور انھوں نے جو بھی دکھ درد جھیلے ان ذاتی ناکامیوں اور مسائل کو انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عام لوگوں کی حسیت کا حصہ بنا دیا اور غم جاناں کو غم دوراں میں تبدیل کر دیا۔ ان کے نزدیک انسانی زندگی کا جو احترام اور تقدس تھا، اسی پامالی کا غم ان کی شاعری اور شخصیت میں جگہ جگہ جھلکتا ہے اور جس کے سامنے ساحر نے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ اس کی بھی عکاسی ان کی نظریاتی وابستگی کا مظہر ہے۔ یہی نہیں کہ انھوں نے نابرابری اور استحصال کے خلاف احتجاج کیا بلکہ وہ جنگ کے خلاف امن کے پیغامبر کے طور پر اپنے دستخط ثبت کرتے ہیں۔ اپنی نظم 'پرچھائیاں' جو عام طور پر ایک رومانی نظم تصور کی جاتی ہے، اس کے ابتدائی اشعار کے بعد جب شاعر جنگ کا منظر پیش کرتا ہے تو قاری پر ایسا جادو طاری ہوتا ہے کہ جو اس کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے:

ناگاہ لہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں

بارود کی بوجھل بو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں

تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا

ہر گاؤں میں وحشت ناچ اٹھی، ہر شہر میں جنگل پھیل گیا

آگے کہتے ہیں:

اٹھو کہ آج ہر اک جنگجو سے یہ کہہ دیں

کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے

ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں

ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے

آخر میں کہتے ہیں:

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے

تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں

جنوح کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے

زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

اس طرح مجموعی طور پر اگر ساحر کی شاعری کا محاسبہ ایک شعر میں کیا جائے تو خود ان کا شعر اس کیفیت کو بیان کر دینے کے لیے کافی ہے:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

(یہ مضمون ساحر کے یوم وفات کے موقع پر بھی شائع کیا گیا تھا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Mar 2021, 7:40 AM
/* */