غلام مرتضیٰ راہی: مجھے ضرور کوئی قید سے نکالے گا... معین شاداب

گزشتہ 10 جولائی کو غلام مرتضیٰ راہیؔ بھی چل بسے۔ حالانکہ وہ کافی عرصے سے صاحب فراش تھے لیکن وہ بھی شعرا و ادبا کی گزشتہ ایک ڈیرھ برس کے عرصے میں وبا کے دوران ہونے والی اموات کی فہرست میں اضافہ کر گئے

غلام مرتضیٰ راہی / معین شاداب
غلام مرتضیٰ راہی / معین شاداب
user

معین شاداب

غلام مرتضیٰ راہیؔ کا تعلق غزل کی آبرو رکھنے والی اس اقلیت سے ہے جس نے اس صنف نازک کے جمالیاتی تقاضوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔ وہ ان معدودے چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے غزل کے تکلفات کا تحفظ کیا ہے۔ جنہوں نے آزمائش کی گھڑی میں بھی غزل کو غزل بنائے رکھا۔ غزل کو گوشۂ ذات سے نکال کر کائنات کی سیر کرانے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، لیکن یہ کام ذرا چیلنج بھرا ہے۔ اس تجربے کے نام پر بعض لوگ اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے لگتے ہیں کہ اس کا حسن مرجھانے لگتا ہے اور لطافت کا جادو ٹوٹ جاتاہے۔ نئے تجربے میں بے راہ روی کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ نئی شناخت بنانے کے چکّر میں بعض اوقات انسان کا اپنا بنا بنایا وجود بھی کہیں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ غلام مرتضیٰ راہیؔ نے بھی غزل کو ذات کے جزیرے سے نکال کر اسے کائنات کے سمندر کا نظارہ کرایا ہے۔ لیکن، اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ نہ کبھی خود راستہ بھولے اور نہ کہیں غزل کو بھٹکنے دیا۔ انہوں نے اپنے اولین شعری مجموعوں ’لامکاں‘ سے لے کر ’لاریب‘ تک، ’لاریب ‘سے ’لاکلام‘ اور ’لاشعور‘ تک اور لاشعور سے ’لاسخن‘ تک اپنے مسلک کی پاسداری کی اور اس روایت کو نہ صرف قائم رکھا ہے بلکہ اسے استحکام بخشا ہے۔

غزل آج بھی اشاروں کنایوں میں ہونے والی گفتگو کا نام ہے۔ یہی رمز و ایمائیت غلام مرتضیٰ راہیؔ کی بنیادی پہچان ہے۔ غزل کے یہ اوصاف اتنے محدود نہیں ہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اس میں فکر کی نئی جہتیں اور اظہار کے نئے پہلو تلاش کرکے یہ ثابت بھی کیا ہے۔ انہوں نے دنیا اور دنیا والوں کے سروکاروں کو بھی ’شاعری بنایا ہے‘۔ لیکن غزل میں شور نہیں مچنے دیا، اسے چیخوں کا کاروبار نہیں بنایا۔ غزل میں انھوں نے مکالمے کا لطف تو پیدا کیا لیکن مباحثہ یا مذاکرہ بناکر اسے بوجھل نہیں کیا۔ غلام مرتضیٰ راہیؔ ؔنے غزل کے جو پیکر تراشے ہیں وہ لبوں سے نہیں، آنکھوں سے گفتگو کرتے ہیں، ان کی زبان نہیں بلکہ جذبے بولتے ہیں، لب نہیں دھڑکنیں کلام کرتی ہیں۔ یہ وہ گفتگو ہے جسے سماعت نہیں کیا جاتا، محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کی غزلیں ایسے ہی غیر محسوس نغموں کو سننے کی کوشش ہے۔

غلام مرتضیٰ راہی کے اشعار پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فکر کے تیشے سے تراشے گئے الفاظ سے تعمیر کئے گئے صنم خانے ہیں۔ ان میں شہرِ طلسمات آباد ہیں۔ عرفانِ ذات، شعورِ ذات، ادراک، آگہی اور حسنِ یقین یہ ایسے استعاراتی اور تلازماتی چراغ ہیں جو ان کی کتابوں میں صفحہ صفحہ اُجالے بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ یہ روشنی ہمیں ان جہانوں سے متعارف کراتی ہے جہاں صرف ان کی اپنی ذات کا درد نہیں، کسی فرد مخصوص کی تکلیف نہیں بلکہ ہر اہل دل کا اجتماعی دُکھ آباد ہے۔ ان کی شاعری میں کشمکش، تذبذب اور بے بسی کا ایک ایسا ماحو ل ہے جہاں سوال ہی سوال ہیں۔


غلام مرتضیٰ راہیؔ کے جہانِ غزل میں کچھ ایسے مناظر بھی یکلخت ہماری آنکھوں سے آٹکراتے ہیں جہاں خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری نغمہ بن کر پھوٹتی ہے۔ جہاں دیواروں سے دَر نکلتے ہیں، منظر سے پس منظر اُبھرتے ہیں، جہاں زخم روشنی دیتے ہیں، سرابوں کا دشوار گذار سفر ہے، ریت میں کشتی کو تیرانے کی آزمائش ہے، اُجڑے دیار میں خوشبو کی بازیافت کا چیلنج ہے۔ ایسے ہی اور نہ جانے کتنے مسائل، تقاضے، مفروضے، سماجی واسطے اورغیرذاتی سروکار غلام مرتضیٰ راہیؔ کی غزل بن گئے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں ماحولیات اور نئی صدی کے متوقع مسائل جیسے نامانوس موضوعات ان کے سخن کا حصہ بنتے رہے ہیں، لیکن غزل کی اسی جمالیات، لطافت اور متانت کے ساتھ جس کے وہ قائل ہیں۔ انہوں نے اگر کھردرے سے کھردرا موضوع بھی چھوا تو بھی احساس کی مدھم لو کو شعلہ نہیں بننے دیا۔ شاید یہی وہ نکتہ ہے جو انہیں ممتاز کرتا ہے۔ سب کے بیچ میں رہ کر اپنی ذات کو الگ رکھنے کی کوشش اور پھر لہجے کی ہمواری یہی سب کچھ ان کی پہچان بن گیا ہے۔

غلام مرتضی راہی ؔ کو ابتدا سے ہی مشاہیر کی داد ملنے لگی تھی۔ ڈاکٹر محمد حسن نے ان کے یہاں غزل کے نئے امکان تلاش کرتے ہوئے ان کے اولین مجموعے ’لامکان‘ کو نیک فال بتایا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے ان کے ذاتی اسلوب کی پیش گوئی کر دی تھی۔ عتیق اللہ نے کہا تھا کہ راہیؔ کی غزل اپنے تیور کی وجہ سے پیش رؤں سے مختلف ہے۔ کرامت اللہ کرامت ؔکے مطابق غلام مرتضیٰ راہیؔ کا کلام انھیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ بانیؔ نے انھیں غیر معمولی غزل گو قرار دیا تھا۔ آل احمد سرور ؔکا کہنا تھا کہ ان کے کلام میں نئی حسیت جلو گرہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے ان کی تہہ داری، دبازت اور لہجے کی تازگی کی تحسین کی تھی۔ وحید اخترؔ نے لکھا تھا کہ وہ غزل شناسی اورعہد شناسی کے ہنر سے واقف ہیں۔وارثؔ علوی نے انھیں اپنے عہد کا بڑا شاعر تسلیم کیا۔ شہر یار ؔنے ان کے یہاں موضوع ، اسلوب اور آہنگ کے نئے تجربے دریافت کیے۔ نظام صدیقی نے ان کی ممتازومنفرد آواز کے پیچھے غیر معمولی تخلیقی شعور اور فنی بصیرت دیکھی ہے۔ پروفیسرشمیم حنفی نے کہا تھا کہ غلام مرتضیٰ راہی کو ان کی چند غزلیں سننے کے بعد ہی نئے شاعروں کی بھیڑ میں آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔

ان کے چند شعر آپ کے ملاحظے کے لئے پیش ہیں:

کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی

بلایا ہے سمندر پار مجھ کو

چڑھتے سورج کی طرف کوئی نہیں دیکھ رہا

سب سمجھتے ہیں کہ دیوارمیں سایہ ہی نہیں

آتا تھا تھاجس کو دیکھ کے تصویر کا خیال

اب تو وہ کیل بھی مری دیوارمیں نہیں

سایہ مرے درخت کا اتنا گھنا ہوا

سورج کے سامنے ہے معمہ بنا ہوا

وقت کے ذہن میں شاید مرا خاکہ ہی نہیں

اک خلا ہوں کہ تعین مرا ہوتا ہی نہیں

حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا

مجھے ضرور کوئی قید سے نکالے گا

اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا

مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے

سب ایک موڑ تک آئے مرے تعاقب میں

پھراس کے بعد سمجھنے لگے سراب مجھے

دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک

ایسے زخم کو اچھا کرکے بیٹھ گئے

وقت نے رکھ دیا آئینہ بنا کر مجھ کو

روبرو ہوتے ہوئے بھی میں فراموش رہا

فن کے عشق میں اپنے ہاتھ قلم کروا لینے کا عزم غلام مرتضیٰ راہیؔ کی طاقت تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔