پاکستانی حکومت نے صوبہ بلوچستان میں آئندہ 23 دنوں تک ’انٹرنیٹ بلیک آؤٹ‘ کا کیا فیصلہ

حال ہی میں پاکستانی حکومت نے خیبر پختونخوا میں انٹرنیٹ بند کر ایک آپریشن چلایا تھا۔ دہشت گردوں کو مارنے کے نام پر چلائے گئے اس آپریشن میں کئی عام شہری بھی مارے گئے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>بلوچستان</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

پاکستانی حکومت نے صوبہ بلوچستان میں ’انٹرنیٹ بلیک آؤٹ‘ کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی محکمہ ٹیلی مواصلات نے 31 اگست تک سیکورٹی وجوہات کے سبب انٹرنیٹ بند کرنے کے متعلق ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر پاکستانی فوج بلوچستان میں کیا کرنے جا رہی ہے؟ حال ہی میں پاکستانی حکومت نے خیبر پختونخوا میں انٹرنیٹ بند کر ایک آپریشن چلایا تھا۔ دہشت گردوں کو مارنے کے نام پر چلائے گئے اس آپریشن میں کئی عام شہری بھی مارے گئے تھے۔ کچھ ایسا ہی بلوچستان میں بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان میں خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان سب سے حساس صوبہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں رواں سال کے نصف اوائل میں 286 حملے ہوئے۔ ان میں 700 سے زائد شہریوں کی موتیں ہوئی تھیں۔ اقوام متحدہ کی نگرانی ٹیم کے مطابق بلوچ جنگجوؤں کو تحریکِ طالبان کے دہشت گرد ٹریننگ دے رہے ہیں۔ اس کے لیے بلوچستان میں 2 ٹریننگ سنٹر بھی قائم کیے گئے ہیں۔ بلوچ جنگجوؤں کے نشانے پر خاص طور سے پاکستانی فوج کے جوان اور پاکستانی حکومت کے افسران ہیں۔ بلوچ کے جنگجو اپنی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہاں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فورس جیسی تنظیمیں فعال ہیں۔ دونوں تنظیموں میں تقریباً  5 ہزار تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔


سینئر ترجمان میر یار بلوچ نے انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ ڈالی ہے۔ میر یار بلوچ کے مطابق بلوچستان میں ایک طرف جہاں حکومت نے انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، وہیں دوسری طرف بلوچ جنگجوؤں نے ریلوے لائن سمیت ان جگہوں پر حملہ شروع کر دیا ہے جسے بلوچستان میں سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے پوسٹ میں لکھا کہ یہ فوج اور بلوچ جنگجوؤں کے درمیان براہ راست جنگ ہے۔

بلوچ تحریک کے ایک حامی ساحر بلوچ نے انٹرنیٹ بند کرنے کے فیصلہ کو آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستانی حکومت نہیں چاہتی ہے کہ دنیا اس کے مظالم دیکھ سکے۔‘‘ بلوچ تحریک کے حامیوں نے پاکستانی حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی بھی ظاہر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے آرمی غلط طریقے سے لوگوں کو پھنساتی تھی تو لوگ اس کی ویڈیو بنا کر مخالفت کرتے تھے۔ جبراً گمشدگی کے خلاف لڑنے کا واحد ہتھیار انٹرنیٹ تھا، لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔