پاکستان: ایک ایک کر 32 پی ٹی آئی لیڈران چھوڑ گئے سابق وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ، لیکن کیوں؟

عمران حکومت میں وزیر برائے حقوق انسانی رہ چکی شیریں مزاری کو عمران خان کا خاص تصور کیا جاتا تھا، انھوں نے نہ صرف پارٹی چھوڑی بلکہ سیاست کو ہی الوداع کہہ دیا۔

عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیف عمران خان جب 9 مئی کو گرفتاری ہوئے تھے تو کئی علاقوں میں آگ زنی ہوئی تھی، تشدد کا بازار گرم ہوا تھا۔ حتیٰ کہ ناراض بھیڑ نے راولپنڈی میں واقع فوجی ہیڈکوارٹر کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ پھر عدالت نے عمران خان کی فوری رِہائی کا فیصلہ سنایا اور ضمانت بھی دے دی۔ اس کے بعد بھی فوج اور پولیس نے عمران خان پر کئی الزامات عائد کیے اور ان کے گھر کی تلاشی ہوئی، آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ ہر حال میں عمران خان نے خود کو مضبوط ثابت کیا اور آخری گیند تک شکست نہ ماننے کا عزم ظاہر کیا۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں یکے بعد دیگر 32 پی ٹی آئی لیڈران نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب عمران خان کو اپنے لیڈران کی سخت ضرورت ہے، آخر کیا بات ہے کہ پارٹی سے استعفیٰ دینے والوں کی قطار لگ گئی ہے؟

دراصل عمران حکومت میں وزیر برائے حقوق انسانی رہ چکی شیریں مزاری کو عمران خان کا خاص تصور کیا جاتا تھا۔ انھوں نے گزشتہ دنوں نہ صرف پارٹی سے استعفیٰ دیا بلکہ سیاست کو ہی الوداع کہہ دیا۔ اس سے قبل عمران خان کی ہر بات کو جائز ٹھہرانے والے فواد چودھری نے بھی عمران سے دوری بنا لی تھی۔ اسی طرح خیبر پختونخواں، بلوچستان، پنجاب، سندھ علاقہ سے کئی لیڈران ایسے ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی چیف سے رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ اس کے پیچھے کی اہم وجہ ہے ان کا مستقبل!


اگر آپ پاکستانی سیاسی ماحول پر نظر ڈالیں گے تو پتہ چلا کہ ایک اتھل پتھل کا دور جاری ہے۔ عمران خان سے تعلق رکھنے والے کئی لیڈران کو بار بار گرفتار کیا گیا ہے۔ شیریں مزاری کو ہی 12 مئی کے بعد پاکستان پولیس نے چار مرتبہ گرفتار کیا۔ اس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ پھر مزاری نے پارٹی چھوڑتے ہوئے کہا کہ وہ اب اپنے خاندان پر دھیان دینا چاہتی ہیں۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 9 اور 10 مئی کو جو تشدد برپا ہوا اس نے ان کا دل توڑ دیا ہے۔ اسی طرح دیگر لیڈران نے بھی پارٹی چھوڑنے کی اپنی اپنی وجہ بتائی ہے۔ بیشتر نے پاکستان میں تشدد کو لے کر فکرمندی ظاہر کی ہے اور کچھ نے تو عمران خان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فوج اور اداروں کے خلاف نہ کھڑے ہوں، بلکہ سیاسی پارٹیوں سے مقابلہ کریں۔

موجودہ حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سبھی لیڈران کو اب عمران خان کا مستقبل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ انھیں لگ رہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت عمران کے خلاف کارروائی ہوگی اور انھیں جیل ہو گئی تو پھر حالات بدتر ہو جائیں گے۔ دھیرے دھیرے پاکستانی حکومت ان کے اوپر کارروائی کرے گی، اور پھر ان کو بھی جیل میں ڈالا جائے گا۔ عمران خان کو گزشتہ مربتہ گرفتار تو قادری ٹرسٹ کے لیے کیا گیا تھا، لیکن ان کے خلاف درجنوں مزید معاملے درج ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ان کے قریبیوں پر بھی شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ عمران خان کا سیاسی مستقبل ڈانواڈول نظر آ رہا ہے۔ پارٹی ٹوٹنے کے دہانے پر ہے، اور ڈوبتی کشتی میں بھلا کون سواری کرنا چاہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */