پاک فوج نے نامور صحافیوں کو دھمکانے کے لیے شروع کی بڑی مہم، آر ایس ایف نے جنرل باجوہ پر لگائے سنگین الزامات

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے فوج کے اعلیٰ کمان کو میڈیا کو مزید ہراساں کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے، جس سے پاکستانی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچے گا۔

قمر جاوید باجوہ، تصویر آئی اے این ایس
قمر جاوید باجوہ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

اپریل کے اواخر میں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد فوج سے متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستانی صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے نو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ دریں اثنا، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے فوج کے اعلیٰ کمان کو میڈیا کو مزید ہراساں کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے، جو پاکستانی جمہوریت کو بری طرح کمزور کر دے گا۔ آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ، ڈینیئل باسٹرڈ نے کہا کہ "گزشتہ دو مہینوں کے دوران آر ایس ایف کی طرف سے درج کیے گئے ہراساں کے کئی معاملوں میں ایک چیز مشترک ہے، تمام متعلقہ صحافیوں نے کسی نہ کسی طرح سے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ 'اعداد و شمار سے واضح ہے کہ مسلح افواج نے اہم صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہے، اس طرح کی مداخلت جو کہ قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے، فوری طور پر بند ہونا چاہیے، بصورت دیگر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاکستان میں آزادی صحافت میں کمی کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ آر ایس ایف کی جانب سے درج کیے گئے تشدد کا تازہ ترین معاملہ 9 جولائی کو اس وقت سامنے آیا جب بی او ایل نیوز کے اینکر سمیع ابراہیم پر دارالحکومت اسلام آباد کے ایک ضلع میلوڈی میں ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو کے باہر تین افراد نے حملہ کیا۔


ایک ویڈیو میں ابراہیم نے کہا کہ وہ لوگ ٹی وی چینل کے باہر اس کا انتظار کرہے تھے تاکہ ویڈیو فلمانے کے دوران اسے ہراساں کیا ھاسکے۔ اس کے بعد وہ لوگ سبز لائسنس پلیٹ والی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے، جو کہ ملک کی ملکیت والی گاڑی کا نشان ہے۔ ابراہیم کے خلاف یہ واقعہ تعزیرات کی دفعات 499، 505 اور 131 کے تحت عدالتی کارروائی شروع ہونے کے چھ ہفتے بعد پیش آیا ہے۔ ان پر ہتک عزت، عوامی نقصان، بغاوت کو اکسانے وغیرہ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

غلط کاموں کے خلاف اپنی بغاوت کا اظہار کرتے ہوئے، ابراہیم نے پاکستانی ریاستی نظام کی اندرونی مشینری اور خاص طور پر سیاست میں فوج کے کردار پر سوال اٹھایا، اسلام آباد سے 70 کلومیٹر مغرب میں صوبہ پنجاب کے ایک قصبے اٹک میں پولیس میں درج کرائی گئی شکایات کے نتیجے میں ۔ یہ کارروائی شروع کی گئی۔ یہ اٹک ہی تھا جہاں ایک اور مشہور ٹی وی صحافی ایکسپریس نیوز ٹی وی کے اینکر عمران ریاض خان کو 5 جولائی کی شام کو سڑک پر واقع ٹول پلازہ پر پنجاب اسپیشل ایلیٹ فورس کے ارکان کے ساتھ ایک درجن پولیس اہلکاروں نے مل کر گرفتار کر لیا۔


عمران ریاض خان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے قبل از گرفتاری ضمانت لینے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن یہ اب انہیں ڈرانے اور اس کی آواز کو دبانے کے لیے کیا گیا۔ میڈیا کی آواز دبانے اور صحافیوں پر حملوں کے اسی طرح کے واقعات کے درمیان فرانس کے دارالحکومت پیرس میں قائم میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے پاکستانی فوج کے اعلیٰ کمان کو میڈیا کو مزید ہراساں کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */