ڈولو-650 بنانے والی کمپنی کی غیر اخلاقی حرکت، ڈاکٹروں کو 1000 کروڑ روپے کے ’تحفے‘ پیش کئے

سی بی ڈی ٹی نے تحقیقات کے بعد الزامات عائد کئے کہ ڈولو-650 کے مینوفیکچرر نے دوا کی فروخت بڑھانے کے لیے غیر اخلاقی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹروں کو رشوت دی اور 1000 کروڑ روپے کے تحائف تقسیم کیے۔

مائیکرو لیبز لمیٹڈ / سوشل میڈیا
مائیکرو لیبز لمیٹڈ / سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

نئی دہلی: دواساز کمپنیاں اپنی فروخت بڑھانے کے لئے کس طرح کے اقدامات اٹھا سکتی ہیں اس کی مثال اس وقت سامنے آئی جب سی بی ڈی ٹی (سینٹرل بیورو آف ڈائریکٹ ٹیکسز) نے تحقیقات کے بعد ڈولو-650 دوا تیار کرنے والی مائیکرو لیبز پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنی فروخت بڑھانے کے لئے غیر اخلاقی طریقوں کا استعمال کیا۔ الزام ہے کہ مائیکرو لیبز نے ڈاکٹروں کو ایک ہزار کروڑ روپے کے تحائف تقسیم کئے۔ ڈولو-650 بخار کو کم کرنے، درد کو دور کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، کورونا کے دور میں یہ گولی کافی مقبول ہوئی اور اس کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔

خیال رہے کہ وزارت خزانہ کے تحت آنے والے سی بی ڈی ٹی نے 6 جولائی کو ڈولو-650 تیار کرنے والی کمپنی مائیکرو لیبز لمیٹڈ کے 36 ٹھکانوں پر چھاپے مارے تھے۔ سی بی ڈی ٹی نے دعویٰ کیا کہ محکمہ نے 1.20 کروڑ روپے کی غیر اعلانیہ نقدی اور 1.40 کروڑ روپے کے سونے اور ہیرے کے زیورات ضبط کیے۔ چھاپے کے بعد سی بی ڈی ٹی نے کہا کہ ’’ثبوت سے پتہ چلتا ہے کہ گروپ نے اپنی مصنوعات / برینڈ کو فروغ دینے کے لیے غیر اخلاقی طریقے اختیار کئے ہیں۔ اندازے کے مطابق مفت میں دیئے جانے والے ان تحائف کی قیمت 1000 کروڑ روپے ہے۔


ایک بیان جاری کرتے ہوئے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے انتظامی ادارے نے کہا کہ دواساز کمپنی ٹیکس چوری میں بھی ملوث ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چوری کئے گئے ٹیکس کا تخمینہ 300 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ سی بی ڈی ٹی نے کہا کہ ’’ابتدائی ثبوت کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ دوا ساز گروپ میڈیکل پروفیشنلز، ہیڈ سیلز اور پروموشن کے تحت مفت کی تقسیم کے لئے ناقابل اجازت رقومات کا استعمال کر رہا ہے۔"

سی بی ڈی ٹی نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں اور طبی پیشہ ور افراد کو ڈاکٹروں کو گروپ کی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے جو مفت تحائف دیئے گئے ہیں ان میں سفری اخراجات، تحائف اور دیگر سہولتیں کے علاوہ پروموشن اور پروپیگنڈہ، سیمینارز اور سمپوزیم، طبی مشورے وغیرہ شامل ہیں۔


سی بی ڈی ٹی کے اس انکشاف کے بعد طبی برادری میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ صحت عامہ کے متعدد ماہرین نے واضح طور پر دواساز کمپنی کی طرف سے اختیار کیے گئے غیر اخلاقی عمل کی مذمت کی ہے۔ دیہی علاقوں میں صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’دی سوگمیا انڈیا فاؤنڈیشن‘ نے دوا ساز کمپنی کی طرف سے اختیار کئے گئے طریقوں کی سخت مذمت کی ہے۔

لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج (دہلی) کے نوجوان ڈاکٹروں کے ایک گروپ کے ذریعہ چلائے جا رہے فاؤنڈیشن نے اس عمل کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی ڈرگس کنٹرولر جنرل آف انڈیا (ڈی سی جی آئی) سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈی سی جی آئی وزارت صحت کے تحت آتا ہے اور ادویات کی مخصوص اقسام کے لئے لائسنس جاری کرتا ہے۔


آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے ایک ڈاکٹر نے کہا، ’’کمپنیاں جو کر رہی ہیں وہ شرمناک ہے۔ وہ اپنی دوائیوں کو غیر اخلاقی طریقوں سے پروموٹ کر رہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر عموماً سستی دوائیں لکھتے ہیں جبکہ پرائیویٹ پریکٹیشنرز مہنگی دوائیں لکھتے ہیں۔ حکومت کو ایسی کمپنیوں پر سخت کارروائی کرنا چاہئے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ حکومت کو ان کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔