پاکستان کی نظر میں امریکہ تنہا پڑ رہا ہے

پاکستان کی پالیسی یہی تھی کہ خلع نہیں لینا جب بھی دے امریکہ ہی طلاق دے دے۔ لیکن متبادل میں پاکستان نے چین کے ساتھ نکاح کر لیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مزمل سہروردی

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک نوجوان عاشق اور معشوق کے رہے ہیں۔ عشق بھی انتہاکا اور نفرت بھی انتہا کی۔ محبت ہے تو مثالی اور نفرت بھی مثالی۔نائن الیون کے بعد شروع ہونے و الی محبت اب اپنے اختتام کو ہے۔ لیکن شائد باہر کی دنیا کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹ حیرانی کا باعث ہو ،لیکن پاکستان میں تواس صورتحال کا ایک سال سے اندازہ تھا کہ حالات ایک دن ایسے ہو جائیں گے۔ اس لئے پاکستان میں ماحول ایسا ہے کہ پریشانی والی کوئی بات نہیں ۔ حالات کنٹرول میں ہیں۔ سب کچھ پلان کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان قطع تعلق ہو چکا ہے۔ پابندیاں بھی لگ چکی ہیں۔ اس لئے کچھ نیا نہیں ہونے جا رہا۔ سب پرانا اسکرپٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیں۔ ٹرمپ کی نئی پالیسی کی وجہ ہندوستان نہیں افغانستان ہے!

لیکن ہر بار جب امریکہ ناراض ہوتا تھا تو پاکستان میں پریشانی کی لہر پھیل جاتی تھی ۔ پاکستان کے پاس امریکہ کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ اس لئے امریکہ ناراض بھی ہوتا تو پاکستان امریکی کیمپ میں ہی رہتا۔ بغیر تنخواہ کے بھی رہتے اور پھر جب صلح ہو جاتی تو امریکہ بہادرپرانی ساری تنخواہیں بھی دے دیتا۔ اس طرح ستر سال گزر گئے۔لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان یہ ماضی کی طرح کا کوئی بریک اپ نہیں ہے۔ یہ طلاق ہے۔ لیکن یہ پہلی طلاق ہے۔ پاکستان کی پالیسی یہی تھی کہ خلع نہیں لینا جب بھی دے امریکہ ہی طلاق دے دے۔ لیکن متبادل میں پاکستان نے چین کے ساتھ نکاح کر لیا ہے۔ اور پاکستان کو امید یہی ہے کہ یہ نکاح اگلے پچاس سال تک تو چلے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان شراکت داری پچاس سال سامنے رکھ کر قائم کی گئی ہے۔ اور اس میں امریکہ کی مکمل ناراضگی کے رسک فیکٹر کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ بلکہ پاکستان میں چین اور امریکہ کا تقابلی جائزہ کچھ ایسے کیا جا رہا ہے کہ بقول ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ نے پاکستان میں پچھلے 15 سال میں 33 بلین ڈالر خرچ کئے جبکہ چین نے ایک سال میں 60 بلین ڈالر خرچ کئے۔

امریکہ پاکستان سے افغانستان میں گیم پلان کے حوالہ سے ناراض ہے۔ ٹرمپ کے ٹوئٹ میں بھی افغانستان کا ہی ذکر ہے۔ امریکہ کا یہ غصہ بے جا نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ ہی چین میں افغانستان کے حوالہ سے سہ فریقی مذاکرات ہوئے جن میں چین ،پاکستان اور افغانستان شامل تھے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی جہاں امریکہ آؤٹ تھا۔ ورنہ اس سے پہلے امریکہ تو ہر جگہ میز پر موجود ہوتا تھا۔ امریکہ کے بغیر افغانستان پر بات چیت وہ بھی چین کی میزبانی میں ۔ یہ درست ہے کہ افغان وزیر خارجہ آئے۔ یہی چین کی کامیابی تھی کہ امریکہ کی ناراضگی کے باوجود افغانستان آگیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کا غصہ بے جا نہیں ہے۔ چین اس کے دونوں بچے پاکستان اور افغانستان لے اڑا ہے۔ چین کے سی پیک منصوبوں کے لئے چین کو افغانستان میں اثر و رسوخ چاہئے۔ اور پاکستان وہ چین کو دے رہا ہے۔ یہ ایک بڑی گیم ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کی گیم ہے۔ جس سے بھارت اور امریکہ ناراض ہیں۔ لیکن پاکستان نے چین کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اب کیا ہو گا۔ امریکہ پاکستان پر پابندیاں لگائے گا۔ اس کی تیاری کر لی گئی ہے۔ چین اب وہ بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ اور چین وہ بوجھ اٹھا لے گا۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہا ہو جائے گا۔ یہ خطرہ ضرور موجود ہے۔ اس کے لئے پاکستان میں بات ہو رہی ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ یورپ امریکہ کے ساتھ نہ جائے۔ برطانیہ نہ جائے۔ پاکستان کی فوجی جنتا تو یہی اشارے دے رہی ہے کہ برطانیہ اور یورپ سے بات ہو ئی ہے۔ وہ ٹرمپ کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ جاپان کے وزیر خارجہ بھی پاکستان آرہے ہیں۔ اس لئے پاکستان امریکہ کو منانے میں کم دلچسپی رکھتا ہے بلکہ یورپ اور دیگر ممالک کو نیوٹرل رکھنے کی زیادہ کوشش میں ہے۔ روس سے تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ روس سے بڑ ابریک تھرو ہو جائے گا۔ جس سے امریکہ کا اثر مزید کم ہو جائے گا۔ روس سے بات بن گئی تو امریکہ ۔افغانستان میں مزید بند گلی میں پہنچ جائے گا۔

پاکستان کے اندر یہ سوچ ہے کہ افغانستان میں پاکستان نہیں بلکہ امریکہ بند گلی میں ہے۔ ایک طرف ایران ہے جس سے امریکہ بات نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستیں ہیں ۔ جو روس کے اثر میں ہیں۔ اور امریکہ سے بہت دور ہیں۔ پھر چین ہے۔ اور پاکستان ہے۔ ایسے میں سپلائی سے لیکر ہر معاملے کے لئے امریکہ پاکستان کا محتاج ہے۔ اس لئے پاکستان میں یہ سوچ ہے ڈرنا نہیں۔ حوصلہ رکھنا ہے۔ دباؤ میں نہیں آنا۔ آخر میں امریکہ ہی لیٹے گا۔ گیم ہمارے ہاتھ میں ہے۔پاکستان نہیں امریکہ تنہا ہے۔ اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jan 2018, 7:44 AM