اٹلی نے ’مصنوعی گوشت‘ پر کیوں لگائی پابندی؟ لگ سکتا ہے 55 لاکھ روپے کا جرمانہ

پارلیمنٹ میں جب مصنوعی گوشت پر پابندی لگانے سے متعلق ووٹنگ ہوئی تو 159 اراکین پارلیمنٹ اس کی حمایت میں تھے، جبکہ 53 اراکین پارلیمنٹ نے خلاف میں ووٹ دیے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، آئی اے این ایس</p></div>

علامتی تصویر، آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

اٹلی نے گزشتہ دنوں ایسے گوشت پر پابندی لگا دی ہے جو تجربہ گاہوں یعنی لیباریٹریز میں تیار کیے جاتے ہیں۔ یوروپ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب لیباریٹری میں تیار مصنوعی گوشت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگر کوئی اس فیصلے کو نظر انداز کرتا ہے تو اس پر 60 ہزار یورو یعنی تقریباً 55 لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا جا سکتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ جب اٹلی کی پارلیمنٹ میں مصنوعی گوشت پر پابندی لگانے سے متعلق ووٹنگ ہوئی تو 159 اراکین پارلیمنٹ اس کی حمایت میں تھے، جبکہ 53 اراکین پارلیمنٹ میں خلاف میں ووٹ ڈالے۔ ویسے ابھی اس پابندی کا اثر اتنا اثر اٹلی اور یوروپ میں نہیں ہوگا، کیونکہ فی الحال دنیا کے صرف دو ملک امریکہ اور سنگاپور میں ہی لیباریٹری میں تیار گوشت انسانوں کو کھانے کی اجازت ہے۔


بہرحال، اس پابندی سے متعلق اٹلی کا کہنا ہے کہ ملک میں کھانے کی ثقافت کو خطرہ تھا اس لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ اٹلی میں کسانوں کی لابی بھی بہت مضبوط ہے اور وہ طویل مدت سے مصنوعی گوشت پر پابندی لگانے کا مطلابہ کر رہا تھا۔ جب اٹلی کی پارلیمنٹ میں مصنوعی گوشت پر پابندی کو منظوری مل گئی تو بڑی تعداد میں کسانوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دراصل اٹلی روایتی زراعت اور کسانوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، اس لیے مصنوعی گوشت سے پرہیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ مصنوعی گوشت پر اٹلی میں پابندی سے ایسی تنظیموں کو شدید جھٹکا لگا ہے جو مویشی کی فلاح سے متعلق آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ لیباریٹری میں تیار کردہ گوشت ماحولیات کے لیے بہتر ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے کاربن امیشن کو بھی بہت حد تک کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کی رپورٹ میں بھی اس بات کا تذکرہ ہے کہ مصنوعی گوشت کو فروغ دے کر فوڈ سیکٹر کی وجہ سے ہونے والے تقریباً 92 فیصد کاربن اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔