امریکہ ایرانی جوہری سمجھوتے سے دستبردار، ایران نے کہا پچھتا نا پڑے گا

امریکی صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ ایرانی جوہری سمجھوتے سے علیحدہ ہو رہا ہے، امریکہ اور ایران کے مابین ایک مرتبہ پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ایران سے معاہدہ توڑنے کے بعد  کی تصویر 
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ایران سے معاہدہ توڑنے کے بعد کی تصویر
user

قومی آواز بیورو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا ’’امریکا محض خالی خولی دھمکیاں نہیں دیتا‘‘۔ انھوں نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ انھوں نے جوہری سمجھوتے سے لاتعلقی کے لیے ایک انتظامی حکم پر دستخط کر دیے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’’یہ جوہری سمجھوتا امریکا اور اس کے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے کیا گیا تھا لیکن ایران نے یورینیم کو افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اگر امریکا اس سمجھوتے سے دستبردار نہیں ہوتا تو مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجاتی‘‘۔

امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد اب ایران کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھی ان کی تقلید میں جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہوجائے گا یا وہ اس میں فریق پانچ دوسرے ممالک برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے ساتھ باقی ماندہ سمجھوتے کو برقرار رکھے گا۔ ایران کی جانب سے اب تک مختلف بیانات سامنے آئے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی صدر کے فیصلے کی روشنی میں اپنے ردعمل کا اظہار کرے گا لیکن امریکہ کے اس فیصلے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ کے اپنے یوروپی اتحادیوں سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔

قبل ازیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فرانسیسی ہم منصب امانوئل میکخواں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ امریکہ ایران سے جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہورہا ہے۔ فرانسیسی صدر نے برطانوی وزیراعظم تھریسامے اور جرمن چانسلر انجیلا میرکل سے ٹرمپ کے اعلان سے قبل آدھا گھنٹے تک کانفرنس کال پر بات ہوئی اور ان سے امریکی صدر کے فیصلے کے ممکنہ مضمرات کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے صدر ٹرمپ اور امانوئل میکخواں کے درمیان ہوئی گفتگو کی تفصیل سے آگاہ ایک ذرئع کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکا نے ایران کے خلاف جوہری سمجھوتے کے نتیجے 2016ء کے اوائل میں ہٹائی گئی پابندیوں کو بحال کرنے کی تیار کر لی ہے اور ان کے علاوہ اضافی اقتصادی پابندیاں بھی عاید کی جائیں گی۔

امریکہ کے یورپی اتحادی ایران سے جولائی 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کو برقرار رکھنے پر زور دیتے رہے ہیں لیکن وہ ٹرمپ کو اس سمجھوتے کو برقرار رکھنے کے لیے قائل نہیں کرسکے ہیں اور اب زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ کی دستبرداری کے بعد یہ سمجھوتا ختم ہوجائے گا۔

ایران نے پہلے ہی امریکی صدر کے جوہری سمجھوتے سے دستبرداری کی صورت میں اپنا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکا ایسا کوئی فیصلہ کرتا ہے تو امریکہ کو اس پر پچھتانا پڑے گا۔

انھوں نے اتوار کو ا یک خطاب میں کہا تھا کہ ’’ہم نے جوہری سمجھوتے کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کی مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر امریکی جوہری ڈیل سے نکل جاتے ہیں تو انھیں اس پر تاریخی طور پر پچھتاوا ہوگا‘‘۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 اکتوبر 2017 کو ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد طے شدہ تاریخی جوہری سمجھوتے کی تصدیق سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ اس کو سرے سے ختم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ گذشتہ سال جنوری میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے اس کو ختم کرنے کے اعلانات کرتے آ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 May 2018, 7:01 AM