امریکہ میں اسٹیل کی درآمدگی پر ٹیرف میں 25 فیصد کا اضافہ، چین کو ٹرمپ نے دیا ایک اور جھٹکا!

صدر ٹرمپ نے یو ایس اسٹیل کے مون ویلی ورکس-ایرون پلانٹ میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا مستقبل شنگھائی کے گھٹیا اسٹیل پر نہیں بلکہ پٹسبرگ کی طاقت اور فخر پر مبنی ہونا چاہیے۔

<div class="paragraphs"><p>امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غیر ملکی اسٹیل درآمدگی پر لگنے والے ٹیرف میں اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ ٹیرف اب 25 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہو گیا ہے۔ ٹرمپ کا یہ فیصلے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان اہم معدنیات اور ٹکنالوجی کے ٹریڈ میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔

ٹرمپ نے جمعہ (30 مئی) کو پٹسبرگ میں واقع یو ایس اسٹیل کے مون ویلی ورکس-ایرون پلانٹ میں یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا مستقبل شنگھائی کے گھٹیا اسٹیل پر نہیں بلکہ پٹسبرگ کی طاقت اور فخر پر مبنی ہونا چاہیے۔


بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے اسٹیل پر ٹیرف بڑھانے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کیونکہ وہ گھریلو اسٹیل پیداوار کنندگان کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی تعمیراتی صنعت کو مضبوط کرنے کی پہل کرنا چاہتے ہیں۔ چین پر امریکہ تجارتی دباؤ بنا کر اسے اقتصادی چوٹ پہنچانے کی فراق میں ہے۔ ٹیرف میں اضافہ کرکے یو ایس اسٹیل-نیپون معاہدہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ میں رہائش، آٹوموٹیو اور تعمیرات جیسے صنعت اسپات پر انتہائی منحصر ہیں۔ ٹیرف بڑھنے سے ان شعبوں میں لاگت بڑھ سکتی ہے جس سے مصنوعات کی قیمتیں بھی اوپر جا سکتی ہیں۔ اس سے صارفین پر اضافی بوجھ پڑ سکتا ہے۔ حالانکہ ٹیرف بڑھانے کے فیصلے سے چین، کینیڈا، یورپ سے درآمد پر بھروسہ کم ہو جائے گا۔


ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ کیے گئے ایک بڑے معاہدے کے بعد جاپان کی نیپون اسٹیل امریکی کمپنی یو ایس اسٹیل کو اپنے اختیار میں لے گی لیکن کمپنی امریکی کنٹرول میں بنی رہے گی۔ اس نظام میں ایک امریکی قیادت کی ٹیم اور ایک خصوصی ویٹوں طاقت (گولڈن شیئر) کا نظم شامل ہے۔ حالانکہ اس معاہدے کی واضح تفصیل ابھی عوامی نہیں کی گئی ہے پھر بھی اسے امریکی کمپنی کو غیر ملکی قبضے سے بچانے کی حکمت عملی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

یونائٹیڈ اسٹیل ورکرس یونین نے ’بلاک بسٹر ڈیل‘ کو لے کر سوال کھڑے کیے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نیپون مکمل ملکیت کے بغیر سرمایہ کاری نہیں کرے گا، جیسا کہ اس نے پہلے کہا تھا۔ اس وجہ سے یونین اس معاہدے کی شفافیت پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔