سری لنکائی عوام میں پھر نظر آنے لگا عدم اطمینان، ایک بار پھر اتھل پتھل کے اشارے ملنے شروع

عوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض مل جانے کے باوجود عام باشندوں کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ فروری سے لے کر اب تک بجلی فیس 66 فیصد بڑھائی جا چکی ہے۔

سری لنکا، تصویر آئی اے این ایس
سری لنکا، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سری لنکا میں سابق صدر گوٹبایا راجپکشے کے خلاف عوامی انقلاب شروع ہوا تھا جس کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ عوامی تحریک کی وجہ سے راجپکشے کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ گزشتہ جولائی میں رانیل وکرماسنگھے نئے صدر بنے تھے۔ لیکن ان تمام سیاسی تبدیلیوں کے باوجود ملک کی ان معاشی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے گوٹبانا راجپکشے کی کرسی گئی تھی۔ ملک میں اب بھی اتھل پتھل کے اشارے مل رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہی عوامی سیکٹر کے ملازمین نے اسپتالوں، بینکوں اور بندرگاہوں میں کام روک دیا۔ ٹیکس اور بجلی فیس میں کیے گئے زبردست اضافہ کے خلاف انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ وکرماسنگھے حکومت نے بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے مطابق ٹیکس اور فیس میں اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف سری لنکا کے لیے 2.9 بلین ڈالر کا قرض منظور کر چکا ہے، لیکن اس کی ادائیگی کرنے سے پہلے کئی اقدام اٹھانے کی شرط لگائی ہے۔


گزشتہ جمعہ کو سری لنکا کے سنٹرل بینک نے ایک بار شرح سود میں اضافہ کیا۔ اس طرح شرح سود اب تقریباً 50 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ سنٹرل بینک کے گورنر نندلال ویراسنگھے نے کہا کہ یہ قدم آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق اٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ اب آئی ایم ایف قرض کی رقم کی ادائیگی شروع کر دے گا۔

لیکن عوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض مل جانے کے باوجود عام باشندوں کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ فروری سے لے کر اب تک بجلی فیس 66 فیصد بڑھائی جا چکی ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی جتنی مہنگی ہے، اتنی 75 سال میں کبھی نہیں رہی۔ اُدھر انکم ٹیکس کی شرح کو بڑھا کر 36 فیصد کی جا چکی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ ’سیو دی چلڈرن‘ کی ایک تازہ سروے رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے نصف کنبوں کو اپنے بچوں کے کھانے میں کٹوتی کرنی پڑی ہے۔


حزب مخالف پارٹیوں کا الزام ہے کہ عوام کو راحت پہنچانے میں ناکام رہنے کے بعد اب صدر وکرماسنگھے تاناشاہی کی طرف بڑھنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ گزشتہ مہینے جس طرح مقامی انتخابات ملتوی کیے گئے، اسے لے کر صدر کی منشا پر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے توجہ دلائی ہے کہ ایک طرف حکومت نے دولت کی کمی کا بہانہ بنا کر مقامی انتخاب ٹلوا دیئے، وہیں گزشتہ مہینے ملک کی آزادی کی 75ویں سالگرہ کی تقاریب پر خوب شاہ خرچی کی گئی۔ سیاسی تجزیہ کار امیتا ارودپرگاسم نے ویب سائٹ نکئی ایشیا ڈاٹ کام سے کہا کہ ’’حکومت کی یہ دلیل گلے سے نہیں اترتی کہ انتخاب کرانے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ انتخاب میں تاخیر کرنا سری لنکا میں بچی کھچی جمہوریت پر حملہ ہے۔‘‘

سری لنکائی سپریم کورٹ بھی اس رائے سے متفق دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو اس نے مقامی انتخابات مکمل کرانے کا حکم صادر کیا۔ عام رائے بنی ہے کہ بے حد غیر مقبول ہو چکے وکرماسنگھے شکست کے خوف سے انتخاب ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ حزب مخالف نیشنل پیپلز پاور کے لیڈر ورائے بالتھازار نے کہا کہ ’’وکرماسنگھے نے لوگوں کے حقوق اور ان کی تکلیف کی پوری اندیکھی کی ہے۔ ان کے لیے عوامی فلاح سے زیادہ اہم اپنی انا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔