پوتن نے اپنی جیت پر پیٹھ تھپتھپائی جبکہ مخالفین نے کی تنقید

ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوتن نے تقریباً 87 فیصد ووٹ حاصل کیے، جو روس میں سوویت یونین کے بعد کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا نتیجہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھاری اکثریت سے انتخابی فتح میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے جس پر جمہوری جواز نہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔انتخابات کے بعد کی ایک نیوز کانفرنس میں، پوتن نے نتائج کو مغرب کی مخالفت اور یوکرین پر حملہ کرنے کے اپنے فیصلے کی توثیق کے طور پر پیش کیا۔

پوتن نے پیر کی صبح اپنی انتخابی مہم کے ہیڈکوارٹر سے ایک خطاب میں کہا کہ "اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ ہمیں کتنا دھمکانا چاہتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ ہمیں کتنا دبانا چاہتے ہیں ۔ تاریخ میں اس طرح  کا کبھی نہیں ہوا ۔"


اتوار کو آخری پولز بند ہونے کے کچھ ہی دیر بعدہی  اس نتیجے کی طرف اشارہ کیا  تھاجس کی ہر ایک کو توقع تھی کہ پوٹن اپنی تقریباً چوتھائی صدی کی حکمرانی کو مزید چھ سال تک بڑھا دیں گے۔

روس کے سنٹرل الیکشن کمیشن کے مطابق، اس کے پاس تقریباً 87 فیصد ووٹ تھے اور تقریباً 60 فیصد حلقوں کی گنتی ہوئی تھی۔ نتیجے کا مطلب ہے کہ 71 سالہ پوتن جوزف اسٹالن کو پیچھے چھوڑ دیں گے اور 200 سے زائد سالوں میں روس کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے رہنما بن جائیں گے۔


ابتدائی نتائج کے مطابق کمیونسٹ امیدوار نکولے کھریٹونوف صرف 4 فیصد سے کم ووٹوں کے ساتھ دوسرے مقام پر ، ن ولادیسلاو ڈیوانکوف تیسرے اور انتہائی قوم پرست لیونیڈ سلٹسکی چوتھے نمبر پر رہے۔پولنگ بند ہونے پر ملک بھر میں ٹرن آؤٹ 74.22 فیصد تھا، انتخابی عہدیداروں نے بتایا کہ 2018 کی سطح 67.5 فیصد سے تجاوز کر گئی۔

پوتن کی جیت پر کبھی شک نہیں تھا کیونکہ ان کے ناقدین زیادہ تر جیل میں، جلاوطنی یا مردہ حالت میں ہیں، جب کہ ان کی قیادت پر عوامی تنقید کو دبا دیا گیا ہے۔روسی رہنما کے سب سے نمایاں حریف الیکسی ناوالنی کا گزشتہ ماہ آرکٹک جیل میں انتقال ہو گیا تھا۔


دوسری جانب امریکہ نے کہا کہ انتخابات نہ تو آزاد تھے اور نہ ہی منصفانہ۔وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ "یہ انتخابات واضح طور پر آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہیں، کیونکہ پوتن نے سیاسی مخالفین کو کس طرح قید کیا اور دوسروں کو اپنے خلاف انتخاب لڑنے سے روکا"۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ووٹ "ایسے نہیں تھے جیسے آزاد اور منصفانہ انتخابات نظر آتے ہیں"۔یوکرین میں صدر زیلنسکی نے کہا کہ ’’اس انتخابی فراڈ کا کوئی جواز نہیں ہے ‘‘۔


پوتن  کو پہلی بار قائم مقام صدر کے طور پر نامزد کیا گیا تھا جب سابق روسی صدر بورس یلسن نے استعفیٰ دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مارچ 2000 میں اپنا پہلا صدارتی انتخاب جیتا اور دوسری مدت 2004 میں۔

صدر کے طور پر دو ادوار کے بعد، پوتن نے 2008 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لئے تبدیل کر دیا تاکہ ریاست کے سربراہ کے طور پر مسلسل دو سے زیادہ میعاد رکھنے پر آئینی پابندی کو ختم کیا جا سکے۔ لیکن وہ 2012 میں صدارت پر واپس آئے اور 2018 میں چوتھی مدت کے لیے جیت گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔