70 فیصد مسلم آبادی والے ملک قزاقستان میں بھی نقاب پر پابندی عائد، خواتین نہیں چھپا پائیں گی چہرہ!

قزاقستان کے صدر ٹوکایف نے چہرہ ڈھکنے سے متعلق بنے نئے قانون کو ملک کی روایتی شناخت کو فروغ دینے والا بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چہرہ چھپانے والے کپڑوں کی جگہ لوگ قزاقستان کے روایتی کپڑے پہنیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

قزاقستان بھی اب ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی ہے۔ یعنی اب قزاقستان میں بھی خواتین اپنا چہرہ نہیں چھپا پائیں گی۔ ملک میں خواتین کے عوامی مقامات پر نقاب یا چہرہ پوری طرح سے ڈھکنے والے کسی بھی لباس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں نئے قانون پر قزاقستان کے صدر قاسم جومارٹ ٹوکایف نے گزشتہ پیر کو دستخط کیا۔ اس فیصلہ پر کچھ لوگوں نے اعتراض بھی ظاہر کیا ہے، لیکن یہ قانون نافذ ہو چکا ہے۔

قزاقستان میں نقاب پر پابندی اس لیے حیرت انگیز قدم ہے، کیونکہ وہاں 70 فیصد آبادی مسلم ہے اور اسلام میں خواتین کے لیے حجاب یا نقاب ضروری ہے۔ حالانکہ حکومت نے اپنے قانون میں کسی مذہب یا مذہبی لباس کا سیدھے طور پر ذکر نہیں کیا ہے۔ پھر بھی مانا یہی جا رہا ہے کہ یہ اصول خصوصاً مذہبی لباس کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس قانون میں کچھ چھوٹ بھی دی گئی ہے، مثلاً اگر کوئی بیمار ہے، موسم بہت خراب ہے، کوئی کھیل یا ثقافتی پروگرام ہے، تو ایسے وقت میں چہرہ چھپانے کی اجازت ہوگی۔


قابل ذکر ہے کہ قزاقستان سے قبل تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان جیسے ممالک میں بھی نقاب یا برقع پہننے پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ اب قزاقستان بھی انہی ممالک کی راہ پر چل پڑا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے پر وہاں کے مذہبی اداروں کا سخت رد عمل لازمی ہے۔ حالانکہ قزاقستان کے صدر ٹوکایف نے چہرہ چھپانے سے متعلق بنے نئے قانون کو ملک کی روایتی شناخت کو فروغ دینے والا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چہرہ چھپانے والے لباس کی جگہ لوگ ملک کے روایتی لباس پہنیں، جو ہماری ثقافت کو اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی جمہوریت کو برقرار رکھنا لازمی ہے، اس لیے یہ قانون اہمیت کا حامل ہے۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ 2023 میں قزاقستان حکومت نے اسکولوں میں حجاب اور نقاب پہننے پر روک لگا دی تھی۔ اس فیصلے کی کئی طالبات نے مخالفت بھی کی تھی، اور اب تو عوامی مقامات پر کوئی بھی خاتون اپنا چہرہ چھپانے والا لباس زیب تن نہیں کر پائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔