بورس جانسن حکومت کو پھر خطرہ لاحق، ساجد اور سناک کے بعد مزید 4 وزراء کا استعفیٰ

بورس جانسن نے معطل رکن پارلیمنٹ کرس پنچر کو ڈپٹی چیف وہپ کے سرکاری عہدہ پر تقرر کیا تھا، جس کے بعد کئی وزراء اور لیڈران نے ناراضگی کا اظہار کیا اور استعفیٰ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

بورس جانسن، تصویر یو این آئی
بورس جانسن، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

برطانیہ کی بورس جانسن حکومت بحران کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر صحت ساجد جاوید اور وزیر مالیات رشی سناک نے منگل کے روز اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کی وجہ سے وزیر اعظم بورس جانسن کے لیے پریشانیاں بڑھ گئی تھیں۔ اب خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ بدھ کے روز مزید چار وزراء نے یکے بعد دیگرے جانسن کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر برائے خاندان و اطفال وِل کوئنس، وزیر برائے ٹرانسپورٹ لاؤرا ٹروٹ، وزیر برائے شہر اور ٹریزری کے لیے معاشی سکریٹری جان گلین، اور ریاستی وزیر برائے جیل وکٹوریا ایٹکنس نے استعفیٰ کا اعلان کر دیا ہے۔

اپنے استعفیٰ نامہ میں وِل کوئنس نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن کے ذریعہ ایک سیاسی لیڈر کی تقرری پر ’غلط‘ بریفنگ دیئے جانے کے بعد ان کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ کوئنس نے اس تعلق سے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’بڑے افسوس اور معذرت کے ساتھ میں نے آج صبح اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو سونپ دیا ہے۔ میں اپنے جانشیں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔‘‘ لاؤرا ٹروٹ کا اس تعلق سے کہنا ہے کہ وہ حکومت میں ’اعتماد‘ کھونے کے سبب استعفیٰ دے رہی ہیں۔ علاوہ ازیں جان گلین نے بھی اپنا استعفیٰ نامہ ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اس معاملے میں میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیں گے۔


دراصل بورس جانسن نے معطل رکن پارلیمنٹ کرس پنچر کو ڈپٹی چیف وہپ کے سرکاری عہدہ پر تقرر کیا تھا، جس کے بعد کئی وزراء اور لیڈران نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ برطانیہ کے وزیر صحت ساجد جاوید اور رشی سناک سمیت کچھ اہم کابینہ وزراء نے منگل کے روز ہی اپنا استعفیٰ حکومت کو سونپ دیا تھا۔ اس کے بعد بڑھتے دباؤ کے درمیان بورس جانسن نے اعتراف کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایک داغدار رکن کو حکومت کے اہم عہدہ پر تقرر کرنا غلط تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بات کا افسوس ہے کہ معطل رکن پارلیمنٹ کے خلاف بدعنوانی کی شکایت کا پتہ ہونے کے بعد انھیں انھیں ڈپٹی چیف وہپ کے سرکاری عہدہ پر فائز کیا۔

قابل ذکر ہے کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے خلاف اب آوازیں بے خوف انداز میں بلند ہونے لگی ہیں۔ جانسن کے مخالفین ان کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کر سکتے ہیں جہاں ان کی قیادت کو ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کیا جانے لگے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ہی کوئی ایک وزیر اعظم بن جائے۔ اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید وزراء استعفیٰ دے دیں، اور پھر بورس جانسن کے لیے خالی عہدوں کو بھرنا بھی چیلنج ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پوری توجہ 1922 کمیٹی الیکشنز پر ہوگی، اور ممکن ہے کہ جانسن کو پھر سے اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔