آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کا عہدہ چھوڑنے سے انکار

اسکاٹ موریسن نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ان کا فیصلہ کورونا وائرس کی وبا جیسے "غیر معمولی وقت" میں "ضروری" تھا۔

اسکاٹ موریسن، تصویر آئی اے این ایس
اسکاٹ موریسن، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

کینبرا: آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے ان کے دور میں پانچ اضافی قلمدان "خفیہ طور پر" اپنے پاس رکھے جانے کی خبر کے عام ہونے کے بعد ایم پی کے عہدے سے دستبردار ہونے کے مطالبات کی مخالفت کی ہے۔ اسکاٹ موریسن نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ان کا فیصلہ کورونا وائرس کی وبا جیسے "غیر معمولی وقت" میں "ضروری" تھا۔ وہ ایوان نمائندگان کے رکن رہے ہیں اور نیو ساؤتھ ویلز میں کک ڈویژن کی نمائندگی کرتے ہیں۔

وزیر اعظم انتھونی البانی نے اسکاٹ موریسن کے قدم کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ 'ہماری جمہوریت کا بے مثال کچرہ' ہے۔ خزانچی جم چلمرس نے کہا کہ یہ اسکاٹ موریسن کے "آمرانہ رجحانات" کا نتیجہ ہے۔ اسکاٹ موریسن کے پانچ اضافی قلمدان اپنے پاس رکھے جانے کے انکشاف نے عوام اور ان کے اتحادیوں میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ وہ مارچ 2020 اور مئی 2021 تک صحت، خزانہ، امور داخلہ اور وسائل کے محکموں کے مشترکہ وزیر بنے۔


بی بی سی کے مطابق ایک وزیر کے کووڈ-19 سے متاثر ہونے کے بعد اسکاٹ موریسن نے کہا کہ وہ "بحران میں قومی مفاد میں کام کر رہے تھے"۔ انہوں نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ میرے پاس سنگین حالات میں مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے 'ہنگامی اختیارات' ہونے چاہیے تھے۔"

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ان عہدوں کا حلف 'خفیہ طور پر' اٹھانے کے باوجود کبھی بطور وزیر کام نہیں کیا۔ اسکاٹ موریسن نے کہا کہ "میں نے کسی بھی محکمے کو ہدایت نہیں کی ہے کہ مجھے کسی ایسے معاملے کو اٹھانے کا اختیار ہے جس سے وزراء روزانہ کی بنیاد پر نپٹ رہے ہوں۔"


جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اس کا انکشاف کیوں نہیں کیا، تو انہوں نے دلیل دی کہ ان کے پاس جو اختیارات تھے ان کا غلط مطلب نکالا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ "میرے خیال میں ایک بڑا خطرہ تھا... ان 'طاقتوں' کا غلط مطلب نکالا جاسکتا تھا اور غلط فہمی ہو سکتی تھی۔ اس سے وبائی امراض کے دوران غیر ضروری غصہ پیدا ہوسکتا تھا۔ اسکاٹ موریسن کو ان کی پارٹی کے ارکان سمیت سابق اتحادیوں اور ملک کے شہریوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Aug 2022, 4:15 PM