قومی مفادات کے خلاف خطرات کا مقابلہ کریں گے، خامنہ ای

امریکا کی طرف سے ساڑھے سات سو فوجی فوری طور پر مشرق وسطیٰ کے خطے میں روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

قومی مفادات کے خلاف خطرات کا مقابلہ کریں گے، خامنہ ای
قومی مفادات کے خلاف خطرات کا مقابلہ کریں گے، خامنہ ای
user

ڈی. ڈبلیو

اطلاعات کے مطابق بغداد متعین امریکی سفیر میتھیو ٹیویلر، جو چھٹی پر آئے ہوئے تھے، واپس سفارتخانے پہنچنے کے لیے روانہ ہو چُکے ہیں۔ بُدھ کی صبح تک عراقی سکیورٹی فورسز نے گرین زون کے ارد گرد کے انتظامات کو معمول کے مطابق کر دیا تھا۔ عام طور سے اس علاقے تک بغیر بیج کے رسائی ممکن نہیں ہوتی۔

دریں اثناء ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے ایک ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا،''ایک بار پھر انہوں نے (ٹرمپ) نے ایران پر حملوں کا الزام لگایا ہے۔ اگر وہ منطقی تھے، جو وہ نہیں ہیں، تو وہ دیکھیں کہ عراق اور دوسرے ممالک میں انہوں نے کیا جرائم کیے ہیں، جن کے سبب قوموں نے ان سے نفرت کی ہے۔‘‘


خامنہ ای نے مزید کہا، ''اگر ایران نے کسی ملک کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو کرے گا۔ کھلے عام اگر کوئی ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دے گا تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مقابلہ کریں گے۔‘‘

قبل ازیں سینکڑوں عراقی ملیشیا اور ان کے حامیوں نے بُدھ کے روز امریکی فوج پر پتھراؤ کیا۔ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے پر ہونے والے پتھراؤ کے خلاف سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کا استعمال کیا اور انہیں منتشر کرنے کے لیے دستی بم بھی پھینکے۔


ان مظاہرین پر عراقی سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ امریکی فوجیوں نے بھی آنسو گیس پھینکی۔ مظاہرہ کرنے والوں میں حشد الشعبی نامی عسکریت پسند تنظیم کے کارکن بھی شامل ہیں۔ اسی تنظیم کے احتجاجی کارکنوں نے سفارت خانے کے باہر کیمپ بھی نصب کر دیے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ بغداد کے سب سے سخت سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں واقع ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی قیادت میں ہونے والے ان مظاہروں کو واشنگٹن اور تہران کے درمیان مشرق وسطی میں جاری شدید کشیدگی کی صورتحال میں ’’ پراکسی وار‘‘ کہا جا رہا ہے۔ ایران کے اعلی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ یکم جنوری کو مشرق وسطیٰ میں امریکا کی حالیہ کارروائیوں کی سحت مذمت کی۔ ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق خامنہ ای نے کہا ہے،''ایرانی حکومت، قوم اور وہ خود امریکی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘‘


اُدھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کا الزام لگایا ہے۔ ایران نے اس امریکی الزام کو تاہم مسترد کر دیا ہے۔ دریں اثنا ٹرمپ انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ میں مزید فوجیوں کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے۔ امریکا کی طرف سے ساڑھے سات سو فوجی فوری طور پر خطے میں روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی سکریٹری دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے ایک ریپڈ ریسپانس یونٹ کے لگ بھگ 750 فوجی اگلے کئی دنوں تک خطے میں تعینات کیے جائیں گے۔ ایسپر کے اس اعلان سے پہلے ایک امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں بتایا تھا کہ چار ہزار تک امریکی فوجی خطے میں تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا نے راتوں رات اپنے مرینز کی ایک تیز رفتار ٹیم بغداد میں اپنے سفارتخانے کی حفاظت کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے روانہ کر دی تھی۔ دریں اثنا واشنگٹن نے کہا ہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے پر ایران نواز باغیوں کے حملے میں سفارتخانے کے عملے کا کوئی رکن زخمی نہیں ہوا۔ ساتھ ہی امریکا نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ بغداد سے اپنے اس سفارتی مشن کو خالی کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔