’نریندر مودی نے نوبل انعام دینے کی حمایت نہیں کی تو ٹرمپ نے اسے دل پر لے لیا‘، امریکی دانشور کا دعویٰ

امریکی ماہر تعلیم ٹیرل جونس نے کہا کہ ٹرمپ کی حکمت عملی 2 فریقین میں بات چیت کے لیے پہلے بڑی بڑی شرطیں لگانا اور پھر انھیں بات چیت کے لیے مجبور کرنا ہے، اور اب بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی / ڈونلڈ ٹرمپ (فائل)</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

امریکہ کے مشہور دانشور اور ماہر تعلیم ٹیرل جونس نے ہندوستان اور امریکہ کے رشتوں میں آئی تلخی پر بات کرتے ہوئے ایک اہم دعویٰ کیا ہے۔ انھوں نے اس تلخی کے ممکنہ اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ خود کو عالمی امن کا مشیر دکھانا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے انھوں نے ہندوستان و پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا سہرا لینے کی کوشش کی۔ جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سے انکار کیا اور نوبل امن ایوارڈ کے لیے ٹرمپ کے نام کی حمایت نہیں کی، تو پھر ٹرمپ اس بات سے غالباً ذاتی طور پر ناراض ہو گئے اور برا مان گئے۔

خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ کے ساتھ بات چیت میں امریکی ماہر تعلیم ٹیرل جونس نے کہا کہ ٹرمپ کی حکمت عملی 2 فریقین میں بات چیت کے لیے پہلے بڑی بڑی شرطیں لگانا اور پھر انھیں بات چیت کے لیے مجبور کرنا ہے، اور اب بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ جونس کہتے ہیں کہ ’’ٹرمپ نے امید کی تھی کہ پی ایم مودی بھی انھیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کریں گے، لیکن جب انھوں نے ایسا نہیں کیا تو ٹرمپ اس بات کو دل پر لے گئے، اور اسی وجہ سے ٹرمپ نے ہندوستان پر ٹیرف لگایا۔‘‘


پروفیسر ٹیرل جونس کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ عالمی لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ نہ صرف سیاسی و معاشی طور پر، بلکہ ’جیو-پالیٹیکل‘ طور پر بھی۔ اسی لیے انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا سہرا لینے میں بہت جلدبازی کی۔ جب مودی نے کہا کہ انھیں پاکستان سے بات چیت کرنے کے لیے امریکہ یا کسی بھی دیگر ملک کی ضرورت نہیں ہے، تو ٹرمپ کو مایوسی ہوئی۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ پی ایم مودی نوبل امن انعام کے لیے ان کے نام کی حمایت کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ غالباً اس بات کو ٹرمپ نے اپنے دل پر لے لیا، اور جب ٹرمپ کوئی بات دل پر لے لیتے ہیں تو اپنا رد عمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ انھوں نے کئی مواقع پر کہا بھی ہے کہ ٹیرف لفظ انگریزی زبان کا سب سے خوبصورت لفظ ہے۔

خبر رساں ایجنسی سے بات چیت کے دوران پروفیسر ٹیرل نے یہ بھی کہا کہ ’’امریکہ یوکرینی صدر زیلینسکی سے بات کر سکتا ہے، امریکہ روس سے بھی بات کر سکتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ روسی صدر پوتن اس پر توجہ نہ دیں۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان ایسا ملک ہے جو دونوں ممالک سے بات کر سکتا ہے اور دونوں ممالک کے لیڈران ہندوستان کی بات کو توجہ سے سنیں گے۔ ایسے میں اگر کوئی بڑا ملک ہے، تو وہ ہندوستان ہے، جو روس-یوکرین جنگ بندی کے لیے ثالثی کا کردار نبھا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔