کشمیر: بی جے پی اب سیدھے اپنے ایجنڈے پر کام کرے گی

’جب سے بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد کی حکومت ریاست میں آئی ہے اس وقت سے جمو ں و کشمیر میں زبردست نفرتیں بڑھی ہیں‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

عام انتخابات سے محض دس ماہ قبل بی جے پی نے کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ چل رہی اتحاد کی سرکار سے خود کو الگ کر لیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں صدر راج نافذ ہو گیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حمایت واپس لینا بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک ہے ؟ کیا کشمیر کے حالات مزید ابتر ہوں گے؟ کیا کشمیریوں پر بحران کے بادل مزید گہرے ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا ۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آنے والے دن خوفناک ہو سکتے ہیں اور وادی میں تشدد اپنے شباب پر پہنچ سکتا ہے۔ کشمیر سے لے کر دہلی تک اقتدار کے گلیاروں میں ان سوالوں کو لے کر لوگ بے چین نظر آ رہی ہے۔

ویسے تو بی جے پی اور پی ڈی پی کے اتحاد پر پہلے ہی بڑے سوال کھڑے ہوئے تھے اور اس اٹھا کود کو لوگ کشمیریت کے خلاف بھی کہہ رہے تھے اور یہ کب ٹوٹ جائے گا اس کا خدشہ ہمیشہ موجود رہا۔ لیکن اتنے خراب حالات میں اتحاد جاری رکھنے کے بعد اچانک بی جے پی نے جو حمایت واپس لینے کا اعلان کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے بی جے پی کی نظریں آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات پر ہیں۔ اس تعلق سے کشمیر کے سینئر رہنما اور کشمیر میں سی پی ایم کے ذمہ دار محمد یوسف تاراگامی نے ’قومی آواز‘ کو بتایا ’’بی جے پی چاہتی ہے کہ کشمیر میں بحران بڑھے، جب سے بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد کی حکومت ریاست میں آئی ہے اس وقت سے جمو ں و کشمیر میں زبردست نفرتیں بڑھی ہیں، سیاسی طور پر پی ڈی پی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ محبوبہ مفتی نے انتہائی شرمناک ڈھنگ سے نریندر مودی کی تسبیح پڑھتی رہیں اور کشمیر کے ہر مسئلہ کے لئے مودی کو ہی واحد حل کی شکل میں پیش کرتی رہیں ۔ حالانکہ اس سے کشمیر کے سیاسی عمل کو جھٹکا ضرور لگے گا اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان کشمیر ی عوام کا ہوا ہے۔ صدر راج کا مطلب ہے مودی کی حکومت اور یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے۔ دراصل مودی حکومت کشمیر کا استعمال آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں تشدد اور نفرت کوپھیلا کر کرنا چاہتی ہے‘‘۔

کانگریس کے سینئر رہنما سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد تو ختم ہونا ہی تھا کیونکہ اس میں موقع پرستی کے علاوہ کچھ اور میل کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کو تقسیم کرنا بی جے پی کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ کشمیریت ایک بہت بڑی چیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران سے یہ بھی ممکن ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں کوئی اتفاق رائے پیدا ہو ، ویسے اس سب کا دارو مدار نیشنل کانفرنس کی دور اندیشی پر ہے، ویسے اس طرح کی آس ابھی کشمیر کی پارٹیوں کے اندر نظر نہیں آ رہی ہے۔

شری نگر کے سماجی کارکن تنویر کا کہنا ہے کہ حالات نہایت کشیدہ ہیں ۔ بی جے پی اب سیدھے سیدھے اپنے ایجنڈے پر کام کرے گی، ہندوتوا کے لئے کشمیر کو ایک دشمن کے طور پر پیش کرنے سے اس کا سیاسی مقصد حل ہو گا اور اس سے پاکستان سے بھی تناؤ بڑھے گا اور کہیں یہ تناؤ کسی جنگ کی جانب نہ لے جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔