افغانستان: ’کون جانے ہم بچیں گے یا نہیں، کبھی اپنوں سے مل پائیں گے یا نہیں‘

افغانستان سے دل دہلا دینے والی کئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، ایک کہانی سلمیٰ کی ہے، جو پیشے سے گرافکس آرٹسٹ ہیں اور اس وقت بہت خوفزدہ ہیں، انھیں پتہ نہیں کہ اب وہ کبھی اپنوں سے مل پائیں گی یا نہیں۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آوازبیورو

افغانستان پر جب سے طالبان نے قبضہ کیا ہے، اس کے بعد سے دل دہلا دینے والی کئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ انہی میں ایک کہانی ہے سلمیٰ (بدلا ہوا نام) کی، جو پیشے سے گرافکس آرٹسٹ ہیں اور اس وقت بہت خوفزدہ ہیں، انھیں پتہ نہیں کہ اب وہ کبھی اپنوں سے مل پائیں گی یا نہیں۔ انھوں نے اپنی جو تکلیف دہ روداد بیان کی، وہ نیچے پیش ہے۔

جس دن طالبان کابل میں گھسا، میں وزارت محنت جا رہی تھی۔ وہاں مجھے کچھ کام تھا۔ لیکن مجھے اندر جانے سے گارڈ نے روک دیا۔ میں نے اس کو نظر انداز کیا اور اندر گئی، تو میں نے خاتون گارڈ کو ڈر سے کانپتے دیکھا۔ سب کو اپنے اپنے گھر جانے کو کہہ دیا گیا تھا۔ میں جب سڑک پر آئی تو میں نے یہاں وہاں لوگوں، خواتین، بچوں کو صدمے میں پایا۔ بیشتر لوگ چھپنے کی جگہ تلاش کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ فوج کی وردی والے جلدی جلدی اپنے کپڑے بدل رہے ہیں اور سادے کپڑے پہن رہے ہیں۔ مجھے ٹیکسی تو مل گئی، لیکن سبھی سڑکیں بند تھیں۔ میں دو گھنٹے تک ٹیکسی میں رہی اور لوگوں کو چاروں جانب دوڑتے بھاگتے دیکھ رہی تھی۔ دکانوں کے شٹر دھڑادھڑ گرائے جا رہے تھے اور سرکاری ملازمین و افسران بھی بھاگ رہے تھے۔ میں جب گھر پہنچی تو مستقبل کو لے کر فکرمند تھی۔


میں فنکار ہوں۔ میں نے دہلی واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ سے فائن آرٹس میں بی اے کیا ہے اور ماسٹرس کرنے کی خواہش مند ہوں۔ میرا آبائی شہر ہرات ہے، لیکن اس وقت میں کابل میں ہوں۔ میری چھوٹی بہن ہرات میں ہے۔ وہ گھر میں ہے اور اپنی زندگی کو لے کر بے حد خوف میں ہے۔ وہ عدالت میں ایک اعلیٰ عہدہ پر کام کر رہی تھی۔ اپنے پیشے کی وجہ سے اس نے کئی خواتین کو طلاق اور دیگر حقوق دلوانے میں مدد کی اور کئی خواتین کے شوہروں کو جیل جانا پڑا۔ ہرات میں جیسے ہی طالبانی گھسے، ان جیلوں کے دروازے کھول دیے گئے۔ اب میری بہن خوفزدہ ہے کہ اپنی بیویوں کو مدد کرنے کا بدلہ اس سے لینے وہ لوگ کبھی بھی پہنچ جائیں گے۔

جس دن طالبانی آئے، اس سے اگلے دن میری بہن اور دوسری خاتون ملازمین نے اپنے دفتر میں فون کر کے پوچھا کہ کیا وہ دفتر آ سکتی ہیں، تو جواب بالکل صاف تھا ’نہیں‘۔ اس کے گارڈ نے بتایا کہ طالبانی اس کے ڈیسک پر آئے تھے اور ان لوگوں نے کچھ فائلیں پڑھیں اور کچھ کو تباہ کر دیا۔

جب طالبانی کابل آئے تو میں نے ہندوستان جانے کی کوشش کی۔ میرے پاس اسٹوڈنٹ ویزا ہے اس لیے مجھے ٹکٹ مل گیا۔ لیکن ائیرپورٹ پر کوئی اسٹاف نہیں تھا جو میرے کاغذات یا سامان کی جانچ کرتا۔ چاروں طرف ہنگماہ برپا تھا اور لوگ ایک دوسرے پر چڑھے جا رہے تھے۔ میں بہت ڈر گئی اور گھر کے لیے نکل گئی۔ لیکن میں پھر کوشش کروں گی۔ ہر آدمی ایسا ہی کر رہا ہے۔ اس سب میں ہر روز 6-5 لوگ مر رہے ہیں، لیکن موت کا خوف کسی کو بھی ائیرپورٹ جانے سے نہیں روک رہا۔ انھیں امید ہے کہ انھیں طالبان سے بچ نکلنے کا راستہ مل ہی جائے گا۔ ہم لوگوں کی مشترکہ فیملی ہے۔ لیکن میرے چچا اور دیگر رشتہ دار سبھی یہاں سے بھاگ نکلنے کا طریقہ تلاش کر رہے ہیں کیونکہ ہم سبھی کو اپنی جان جانے کا ڈر ہے۔ ہو سکتا ہے، ہمیں دنیا کے الگ الگ گوشوں میں پناہ گزیں کے طور پر رہنا پڑے کون جانتا ہے کہ ہم کہاں جائیں گے؟ ہم ایک دوسرے سے کبھی مل بھی پائیں گے یا نہیں، یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔


ہم تین بہنیں ہیں۔ ابھی تو ہمارے پاس کچھ پیسے ہیں، کچھ دن کام چل جائے گا، لیکن میری بہن کی تنخواہ ٹرانسفر نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے بھی پیسے جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔ بینک خالی ہے، اے ٹی ایم میں پیسے نہیں ہیں، دکانیں بند ہیں، سرکاری دفاتر بھی بند پڑے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ویسے دفتر کھلے ہوں جہاں طالبان کا قبضہ ہو۔ قومی نیوز چینلوں میں اب کوئی خاتون اینکر نہیں ہے۔ ہم میں سے بیشتر کے گھروں کے لوگوں کے پاس سرکاری ملازمتیں تھیں، لیکن اب وہ بے روزگار ہیں۔

میری تو دنیا اور خواب اجڑ گئے۔ میں فنکار ہوں۔ میں نے افغانستان کے فطری مناظر، لوگوں، ثقافتوں اور رنگوں کو لے کر پینٹنگ بنائی ہے۔ میں کافی خواب لے کر اپنے ملک لوٹی تھی۔ میں نے اپنے آبائی شہر میں گرافک آرٹ انسٹی ٹیوٹ کھولنے کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن طالبان پینٹنگ اور آرٹ پر پابندی لگاتا ہے۔ طالبان حکومت میں میرا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہندوستان میں پناہ گزیں کی شکل میں زندگی گزارنے کے بارے میں بھی میں نے کبھی نہیں سوچا۔ آپ دہلی کے لاجپت نگر یا بھوگل چلے جائیں اور دیکھیں کہ وہاں پناہ گزیں کس طرح بغیر روزگار، بغیر تحفظ کے رہتے ہیں۔ انھیں کوئی عزت نہیں دیتا۔ سب نیچی نظروں سے دیکھتے ہیں۔


ویسے، ہندوستان بھی ویسا نہیں ہے جیسا وہ ایک دہائی پہلے تھا۔ جب میں 14 سال قبل ہندوستان پہلی مرتبہ گئی تھی تب یہ دوسرے قسم کا ملک تھا۔ سب لوگ ہم لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ کسی کو پریشانی نہیں تھی کہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن سی اے اے مخالفت کے دوران چیزیں بدل گئیں اور میں مسلم ہونے کی وجہ سے فکرمند رہنے لگی۔ میرے ہندو مکان مالک کافی اچھے تھے، وہ میری فکر کرتے تھے۔ اگر میں باہر نکلتی تھی تو وہ بار بار مجھ سے اشاروں میں کہتے تھے کہ چونکہ میں مسلمان ہوں اس لیے محفوظ نہیں ہوں۔

اب تو میں یہی امید کرتی ہوں کہ میں اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ جہاں بھی جاؤ، محفوظ اور باوقار زندگی گزاروں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Aug 2021, 9:11 PM