خواتین کو حیض آنا بھی سیاسی ایشو ہے

ہندوؤں کی قدیم کہانیوں میں کرایہ پر منی عطیہ کرنے والوں کے کارناموں اور ان کی تعریفوں کا خوب تذکرہ ہے۔ سبریمالہ مندر کے ایپّا کو حیض کے خون سے ڈر لگتا ہے، منی سے نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اجے سنگھ

عورتوں کی ماہواری یعنی حیض بھی سیاسی ایشو ہے۔ یقین نہ ہو تو سبریمالہ مندر (کیرالہ) کو دیکھ لیجیے۔ عورتوں کی ماہواری نے سیاسی اقتدار، مذہبی اقتدار اور مرد اساسی سوچ کو زبردست طریقے سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے ایک بار پھر ’می ٹو مہم‘ کی طرح بتا دیا ہے کہ ہمارے سماج، کلچر، سیاست اور غور و فکر کا ریشہ ریشہ بھیانک خاتون کشی سوچ کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ زہریلی ذہنیت عورت کو دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری تو مانتی ہی ہے، اسے جہنم کا دروازہ، گناہ کا ذریعہ، مرد کو پھنسا کر گندا کرنے والی گندگی اور ناپاک بھی قرار دیتی ہے۔

خاتون کے تئیں یہی منفی سوچ خاتون کے جسم کے نہایت حسین قدرتی عمل حیض کے خون کو گندہ اور ناپاک مانتی ہے، اور حیض کے دور سے گزر رہی عورت پر کئی طرح کی پابندی لگاتی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ انسان کے جسم سے نکلنے والی سیال شئے کے بارے میں بھی سیاسی نظریہ کام کرتا ہے۔ عورت کے جسم سے نکلنے والی سیال شئے (حیض کا خون) کو گندہ، ناپاک اور غیر شفاف تصور کیا جاتا ہے جبکہ مرد کے جسم سے نکلنے والے سیال مادہ (منی) کو اعلیٰ، پاکیزہ اور شفاف تصور کیا جاتا ہے۔

ہندوؤں کی قدیم کہانیوں میں کرایہ پر منی عطیہ کرنے والوں کے کارناموں اور ان کی تعریفوں کا خوب تذکرہ ہے۔ یش پال کی کہانی ’بھگوان کے پِتا کے دَرشن‘ پڑھ لیجیے۔ کیا کیا جائے، پالیٹکس تو ہر جگہ ہے! (کرن سنگھ کی بہترین کہانی ’شیلاوہا‘ اسی پالیٹکس کو منظر عام پر لاتی ہے۔) سبریمالہ مندر کے ایپّا کو حیض کے خون سے ڈر لگتا ہے، منی سے نہیں۔

سبریمالہ مندر میں طویل مدت سے حیض کی عمر کی عورتوں (10 سے 50 سال تک کی عمر کی عورتوں) کے داخلے پر پابندی لگی تھی۔ اسے ملک کی عدالت عظمیٰ نے 28 ستمبر 2018 کو ہٹا دیا اور مندر میں سبھی عمر کی خواتین کو داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ حیض کے جسمانی/فطری بنیاد پر خواتین کو سبریمالہ مندر میں نہ جانے دینا پوری طرح غیر آئینی ہے۔

یہ تاریخی اہمیت کا حامل فیصلہ ہے۔ یہ درست ہے کہ عورتوں کے سامنے کئی دیگر اہم مسائل ہیں اور یہ فیصلہ ان کا حل نہیں ہے۔ لیکن مرد اساسی سماج اور سامنتی سوچ کو چوٹ پہنچانے والے کسی بھی قدم کا استقبال کیا جانا چاہیے، اور یہ عدالتی فیصلہ اسی سمت میں ہے۔ عورتیں مندروں (اور دیگر عبادت گاہوں) میں جائیں یا نہ جائیں، پوجا کریں یا نہ کریں، اسے عورتوں کی خواہش، شعور اور اختیار پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ لیکن عورت ہونے کے ناطے یا حیض کی عمر ہونے کی وجہ سے کسی بھی جگہ ان کے داخلے پر پابندی کسی بھی حالت میں منظور نہیں۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو آئے ایک مہینہ سے اوپر ہو گیا۔ لیکن ابھی تک کیرالہ کی حکومت اس فیصلے کو نافذ نہیں کرا پائی۔ سبریمالہ مندر میں عورتوں کا داخلہ نہیں کرا پائی ہے، جب کہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ کیرالہ میں سی پی آئی ایم کی قیادت میں بایاں محاذ کی حکومت ہے۔ اس مسئلے پر حکومت جھجکتی، اورلڑکھڑاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ حالانکہ اس نے آر ایس ایس -بی جے پی سے جڑے تشدد پسند افراد اور ہڑدنگ مچانے والوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا ہے، لیکن اصل مسئلہ عدالتی فیصلے کو نافذ کرانے کا ہے۔

اس فیصلے کے خلاف ہندوتوا فاشسٹ طاقتوں نے کیرالہ میں جو گھمسان، تشدد اور نفرت آمیز سرگرمیاں چلا رکھی ہیں، ان کا واضح سیاسی ایجنڈا ہے۔ وہ ایجنڈا یہ ہے کہ کیرالہ کی بایاں محاذ حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے اور بابری مسجد تنازعہ میں سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلہ کو اپنے حق میں کرا لینے کے لیے دباؤ بنایا جائے۔ افسوس یہ ہے کہ اس خاتون مخالف اور جمہوریت مخالف پرتشدد مہم کو کانگریس کی حمایت ملی ہوئی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور بی جے پی سربراہ امت شاہ کہہ چکے ہیں کہ یہ عدالتی فیصلہ ہندوؤں کی روایت کے خلاف ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امت شاہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ عدالت کو ایسا فیصلہ سنانا ہی نہیں چاہیے جسے نافذ نہ کرایا جا سکے۔ اس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ بابری مسجد تنازعہ میں فیصلہ ہمارے (آر ایس ایس-بی جے پی کے) حق میں ہونا چاہیے۔

بہر حال، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین کے حیض کے ایشو نے ایک عجیب مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔