کیا کشمیر سے دھیرے دھیرے ہٹا لی جائے گی فوج؟ حکومت ہند ایک خاص منصوبہ بندی پر کر رہی کام

فوجی افسر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وزارتی سطح پر بات چیت کی جا رہی ہے اور جلد ہی کارروائی ہو سکتی ہے، ایک طرح سے فیصلہ لیا جا چکا ہے اور اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ یہ کب سے شروع ہوگا۔

سیکورٹی اہلکار، تصویر یو این آئی
سیکورٹی اہلکار، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے تقریباً ساڑھے تین سال بعد اب وہاں سے فوج ہٹائے جانے پر غور و خوض چل رہا ہے۔ خصوصی ریاست کا درجہ ختم کیے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کی گئی تھی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اب مرکزی حکومت وادی کے اندرونی علاقوں سے ہندوستانی فوج کو دھیرے دھیرے ہٹانے پر مشورہ کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستانی فوج کی موجودگی صرف لائن آف کنٹرول (ایل او سی) تک ہی محدود رہ جائے گی۔

اس سلسلے میں ’انڈین ایکسپریس‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں سیکورٹی فورسز کے افسران کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ کشمیر کے اندرونی علاقوں سے فوج ہٹانے کی تجویز پر دو سال سے مشورہ چل رہا ہے۔ وزارت دفاع، وزارت داخلہ، سیکورٹی فورسز اور جموں و کشمیر پولیس کے شامل ہونے سے اس بات چیت میں تیزی آئی ہے۔ وادی میں نظامِ قانون اور دہشت مخالف مہموں کے لیے ہندوستانی فوج کے ساتھ تعینات کی گئی سی آر پی ایف کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ ’انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق فوجی افسر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وزارتی سطح پر بات چیت کی جا رہی ہے اور جلد ہی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ایک طرح سے فیصلہ لیا جا چکا ہے اور اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ یہ کب سے شروع ہوگا۔ حالانکہ انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت کو ہی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک کوئی فیصلہ نہیں آتا ہے، تب تک کوئی بھی ہلچل نظر نہیں آئے گی۔


رپورٹ میں فوجی افسران کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پورے جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج نے تقریباً 1.3 لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کر رکھی ہے۔ ان میں سے تقریباً 80 ہزار ہندوستان کی سرحدوں پر تعینات ہیں۔ کشمیر کے اندرونی علاقوں میں نیشنل رائفلز کے کے تقریباً 40 سے 45 ہزار جوان انسداد دہشت گردی مہم چلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سی آر پی ایف کے پاس تقریباً 60 ہزار جوانوں کی طاقت ہے، جن میں سے 45 ہزار وادیٔ کشمیر میں تعینات ہیں۔ 83 ہزار کا نمبر جموں و کشمیر پولیس کا ہے۔ اس کے علاوہ سی اے پی ایف کی کچھ کمپنیاں بھی وادی میں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔