ادھو: مجھے تم دلوں سے نکالو تو جانیں!

بی جے پی نے شیوسینا پر ایکناتھ شندے کا تو قبضہ کرا دیا لیکن لوگوں کے دلوں سے ادھو ٹھاکرے کے قبضے کو کیسے ختم کرے گی؟

ادھو ٹھاکرے، تصویر یو این آئی
ادھو ٹھاکرے، تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

مہاراشٹر میں شیوسینا سے علاحدہ ہونے والے ایکناتھ شندے گروپ میں آج کل جشن کا سماں ہے۔ پٹاخے پھوٹ رہے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں، مبارکبادیوں کی مہم چل رہی ہے، پوسٹر و بینرس کے ذریعے خود کو بال ٹھاکرے کا اصل وارث ثابت کیا جا رہا ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے شیوسینا کے انتخابی نشان تیرکمان پر شندے گروپ کی دعویداری تسلیم کرلی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت ہوا ہے جب سپریم کورٹ میں 12؍باغی ممبرانِ اسمبلی کی نااہلی کا معاملہ زیرِ سماعت ہے اور ریاست کے دو اسمبلی حلقوں میں ہو رہے ضمنی انتخابات کے پیشِ نظر ضابطہ اخلاق نافذ ہے۔

الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ نہ تو غیرمتوقع ہے اور نہ ہی قبل ازوقت، غیرمتوقع اس لیے نہیں ہے کہ کیونکہ اس سے قبل جب پارٹی کے نام اور نشان کو منجمد کیا گیا تھا، اسی وقت سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اصل شیوسینا شندے کے دھڑے کو ہی قرار دیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد بی جے پی کے سُپر سی ایم نے تو اس کا برملا اظہار بھی کر دیا کہ ’ہم مطمئن تھے کہ شندے گروپ ہی اصل شیوسینا قرار پائے گی‘۔ گویا انہیں پہلے سے ہی یہ بات معلوم تھی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے میں بی جے پی کی مرضی شامل رہی ہے، وگرنہ فڈنویس صاحب اپنے اطمینان کے اظہار میں لفظ ’ہم‘ پر اتنا زور ہرگز نہیں دیتے۔


اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے پہلے فیصلے کے وقت ممبئی کے اندھیری میں ایک ضمنی انتخاب ہونے والا تھا۔ اس انتخاب کو بنیاد بناکر شندے گروپ نے الیکشن کمیشن سے پارٹی کے نام ونشان پر فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ الیکشن کمیشن شاید اس کے لیے پہلے سے ہی تیار بیٹھا تھا کہ اس نے دونوں گروپ کو پارٹی کے نام ونشان کے استعمال پر روک لگا دی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ بی جے پی وشندے گروپ کے درمیان اتحاد کی وجہ سے مذکورہ سیٹ بی جے پی کے حصے میں آئی تھی اور شندے گروپ کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔ اس کے باوجود ادھوٹھاکرے گروپ کو شیوسینا  نام وتیر کمان نشان کے استعمال سے روک دیا گیا۔ ایک ایسے ضمنی الیکشن میں جس میں صرف ایک گروپ ہی پارٹی کا نام ونشان استعمال کرسکتا تھا، اس میں بھی الیکشن کمیشن کو قباحت محسوس ہوئی تھی۔

یہ فیصلہ قبل ازوقت اس لیے بھی نہیں ہے کیونکہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب کو اب مزید ملتوی نہیں کیا جاسکتا اور جب تک اصل شیوسینا پر شندے گروپ کا قبضہ نہیں ہو جاتا یہ الیکشن ہو بھی نہیں پاتا۔ یہ کارپوریشن گزشتہ 8 ماہ سے بغیرعوامی نمائندوں کے چل رہی ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن ملک کی سب سے بڑی کارپوریشن ہے اور جس پر ادھوٹھاکرے کی شیوسینا کا قبضہ ہے۔ ابھی ہفتہ بھر قبل اس کارپوریشن کا بجٹ پیش ہوا ہے لیکن شیوسینا و دیگر پارٹیوں کے کارگزار کارپوریٹروں کو عوامی کاموں کے لیے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔ اس کے برخلاف بی جے پی کے کارگزار کارپوریٹرس کو فنڈ مل رہا ہے۔


 کارپوریشن کی اس ناانصافی کے خلاف ادھوٹھاکرے گروپ نے عدالت کا درواز کھٹکھٹا دیا۔ اس معاملے میں ظاہر ہے کہ عدالت سے فنڈ کے یکساں تقسیم کا حکم صادر ہوتا۔ لیکن ایسی صورت میں بی جے پی کے لیے یہ مسئلہ ہو جاتا، فنڈ ملنے کی صورت میں ادھوٹھاکرے گروپ کے کارگزار کارپوریٹرس اپنے اپنے وارڈوں میں الیکشن کی تیاری میں لگ جاتے۔ ممبئی کارپوریشن پر قبضہ کرنے کو بی جے پی نے اس بار اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ وزیر داخلہ نے تو گزشتہ سال ستمبر میں ہی شندے گروپ کے ساتھ کارپوریشن کی 150 سیٹیوں پر قبضہ کرنے کے اپنے ہدف کا اعلان فرما دیا تھا۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ شندے گروپ کا اصل شیوسینا قرار دے کر کارپوریشن کا الیکشن کروایا جائے۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد ادھوٹھاکرے و ان کی پارٹی کے ترجمان و ایم پی سنجے راؤت نے نئے نام وانتخابی نشان کے ساتھ پارٹی کو دوبارہ کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں انہوں نے اس فیصلے کے خلاف عدالتی لڑائی لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں کوئی دخل نہیں دے گا کیونکہ اس نے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو اپنے طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔ ایسی صورت میں ادھوٹھاکرے کے سامنے عوام کی عدالت ہی بچتی ہے جس میں اصل شیوسینا و قابض شدہ شیوسینا کا فیصلہ ہو جائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے این سی پی کے سربراہ شردپوار نے ادھوٹھاکرے کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے نئے سرے سے پارٹی کو کھڑا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟ تو اس کے جواب سے ہر کوئی واقف ہوگا کہ بی جے پی جب سامنے کی جنگ نہیں جیت پاتی تو پیٹھ پیچھے سے حملہ آور ہوتی ہے۔ شیوسینا کو اپنے پالے میں کرنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود جب اسے کامیابی نہیں ملی تو اس نے شیوسینا میں بغاوت کروا دی۔ جبکہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ فڈنویس نے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ پیر پسار دیئے تھے کہ اب آئندہ الیکشن میں ہی ہم اکثریت حاصل کریں گے، گویا ہم اب ہار گئے۔ لیکن مرکز کی جانب سے ایجنسیوں کا انجکشن لگاتار جاری تھا کہ اچانک بی جے پی کو اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ انجکشن کا پاور اگر بڑھا دیا جائے تو من کی مراد حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے تحت ایکناتھ شندے پر ہی ہاتھ ڈالا گیا جس سے گھبرا کران کے ایک سکریٹری صاحب کو انڈر گراؤنڈ ہونا پڑگیا۔

 پھر اس کے بعد کا منظرنامہ یہ تھا کہ 40 سے زائد شیوسینا کے باغی ممبران اسمبلی کے ساتھ بی جے پی نے مہاراشٹر میں اپنی حکومت بنالی۔ بی جے پی کی اتحادی پارٹیوں میں فی الوقت سب سے بڑی علاقائی پارٹی اگر کوئی ہے تو وہ مہاراشٹر کی بی ایس ایس (بالاصاحبن چی شیوشینا) ہے جس کے 14؍ ممبرپارلیمنٹ اور 40 ممبرانِ اسمبلی ہیں۔ اس سے قبل ادھوٹھاکرے کی قیادت میں شیوسینا بی جے پی کے ساتھ تھی جسے بی جے پی نے توڑ دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کل ایکناتھ شندے بی جے پی کے کسی فیصلے سے روگردانی کرتے ہیں یا اس کے کسی فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں تو کیا بی جے پی انہیں چھوڑ دے گی؟ ایسی صورت میں تو وہ شندے گروپ کو ایک لمحے میں چٹ کر جائے گی؟ اس لیے شندے کو اب ہمیشہ بی جے پی کا باج گزار بن کر رہنا ہوگا۔


اس لیے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے بھلے ہی شندے گروپ خوشیاں منا رہا ہو اور اسے اپنی جیت بتا رہا ہو، لیکن اصل جیت بی جے پی کی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے اس کے ذریعے ایک تیر سے دوشکار کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ شندے کو اپنا ایک ایسا بے دام غلام بنالیا ہے جو اس کی مرضی کے خلاف کبھی چوں نہیں کرسکتے۔ دوسرا یہ کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن سے ادھوٹھاکرے کا قبضہ ختم کرنے کے لیے ان کی پارٹی کوان سے چھین لیا۔ یوں بھی جب ریاست سے لے کر مرکز تک بی جے پی کی پوری مشینری اور تفتیشی ایجنسیوں سے لے کر الیکشن کمیشن تک کسی ایک ہدف پر کام شروع کر دیں تو اس طرح کے نتائج رونما ہونا فطری بھی ہے۔

لیکن بی جے پی کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی پارٹی کو تکنیکی اعتبار سے چھین لینے سے عوام کی اس کے تئیں محبت اور حمایت کو ہرگز نہیں چھینا جاسکتا۔ یہ محبت اور حمایت حالیہ قانون ساز کونسل میں ریاست کے لوگوں نے ظاہر کر دی ہے جس میں پانچ میں سے نہ صرف ایک سیٹ بی جے پی کے حصے میں آئی ہے بلکہ وہ اپنی ناک سمجھی جانے والی ناگپور کی سیٹ بھی ہار گئی۔ اس لیے یہ سوال بی جے پی کے ساتھ شندے گروپ کے لیے بھی ہے کہ بھلے ہی ادھو ٹھاکرے سے پارٹی کا نام اور نشان چھین لیا گیا ہو لیکن لوگوں کے دلوں سے ادھو ٹھاکرے کے قبضے کو کیسے چھینا جاسکے گا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔