وادی کشمیر: انتظامیہ سری نگر عیدگاہ تک عوام کی رسائی کو کیوں محدود کرنا چاہتی ہے؟

بی جے پی لیڈر اور وقف بورڈ کی چیرپرسن درخشاں اندرابی کو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ زور دے کر کہتی ہیں کہ عوامی ناراضگی اور خدشات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

سری نگر کی عیدگاہ / Getty Images
سری نگر کی عیدگاہ / Getty Images
user

زنیرہ بخش

وادی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے تاریخی پائین شہر کے وسط میں واقع 15ویں صدی کے 80 ایکڑ پر مشتمل عیدگاہ میدان سے عوام کا گہرا جذباتی تعلق ہے۔ نماز عیدین اور زلزلے، سیلاب اور قحط کے دوران خصوصی دعاؤں کے لیے بھی کشمیری اسی عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی میں تاریخ کے سابق پروفیسر فاروق فیاض کا کہنا ہے کہ عیدگاہ وہ جگہ جہاں اولیاء شیخ العالم اور شیخ حمزہ مخدوم نے خطبہ دیا تھا۔

اختتام ہفتہ اور تعطیلات میں عیدگاہ کی رونق قابل دید ہوتی ہے، کیا جوان، کیا بزرگ، کیا مرد و خواتین یہاں جمع ہو کر اپنی روزمرہ کی گھٹن سے نجات پا لیتے ہیں۔ کچھ سائیکل چلانا سیکھتے ہیں، کچھ کنارے پر کھیلتے ہیں، لڑکے اور نوجوان کرکٹ کھیلتے ہیں جبکہ خواتین اپنے چھوٹے گروپوں میں دھوپ میں ٹہلتی نظر آتی ہیں۔ اس دوران خونچے والے ادھر ادھر گھوم گھوم کر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔


فتح کدل سے تعلق رکھنے والی گلشن آرا (60) کا کہنا ہے کہ یہاں گزارا ہوا وقت بہت سے لوگوں کے لیے، خاص طور پر خواتین کے لیے سکون بخش ہوتا ہے اور پڑوسیوں یا رشتہ داروں کی صحبت سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے خواتین کو تحفظ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمارے پاس ویسے بھی اس طرح کے مقامات نہیں ہیں، جہاں خواتین آزادانہ اور محفوظ طریقے سے ملاقات اور گفتگو کر سکیں۔‘‘

لیکن جیسا کہ تمام اچھی چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے، کیا اس میدان کے بھی ختم ہونے کا وقت آن پہنچا ہے؟ دراصل، بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر کنٹرول وقف بورڈ نے اس سال بارش کے بہانے یہاں لوگوں کے جمع ہونے اور نماز کی ادائیگی پر روک لگا دی ہے۔ اور اب معلوم ہوا ہے کہ عیدگاہ میدان میں کینسر اسپتال قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جس سے مقامی لوگ کافی پریشان ہیں اور ان میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ یہاں کے ایک 29 ساسلہ رہائشی کا کہنا ہے ’’کینسر اسپتال بنانے کا اصل مقصد لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ انہیں عیدگاہ کی اہمیت کو ختم کرنا ہے۔ یہ اقدام تاریخ کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔‘‘


لوگوں کے اس قسم کے شکوک و شبہات بے وجہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ سری نگر میں دو کینسر اسپتال پہلے سے ہی موجود ہیں، جو عیدگاہ سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے اور بھی مقامات ہیں جہاں کینسر استپال قائم کیا جا سکتا ہے، پھر عیدگاہ کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا! تقریباً 300 ایکڑ پر محیط گولف کورس بھی موجود ہے جہاں لوگ بھی کم ہی جاتے ہیں وہاں اسپتال کیوں نہیں بنایا جا رہا! لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر عوام کے لئے اس طرح کے واحد کھلے مقام کو ہی اس کام کے لئے کیوں چنا گیا۔

انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ عید گاہ وہ جگہ بھی ہے جہاں لوگ غم منانے اور احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ لہذا اس طرح مستقل طور پر سری نگر میں بدامنی والے ایسے مقام کو ختم کر دیا جانا اختلاف اور مزاحمت کا دم گھونٹنے کے مترادف ہے اور یہ محض عوامی یادداشت میں خلل ڈالنا ہی نہیں ہے۔


کشمیر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ عیدگاہ پہلے ہی بدل چکی ہے، یہاں نیم فوجی دستے ہر وقت تعینات رہتے ہیں اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی ڈرون ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہاں کرکٹ کھیلنے کا پرانا لطف ختم ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی چوکسی کھلاڑیوں کے دلوں میں گھبراہٹ پیدا کرتی ہے۔

تاہم بی جے پی لیڈر اور وقف بورڈ کی چیرپرسن درخشاں اندرابی کو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ زور دے کر کہتی ہیں کہ عوامی ناراضگی اور خدشات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ زمین بلاشبہ وقف بورڈ کی ہے اور یہاں اسپتال بنانے کے لئے زمیں دینا وقف بورڈ کے دائرہ اختیار میں شامل ہے۔ وہ فوری طور پر یہ بھی کہتی ہیں کہ اسپتال عیدگاہ کے صرف ایک حصے میں بنے گا اور اس سے نماز کے مقام یا اس سے ملحقہ قبرستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن عوام کو اس پر یقین نہیں ہے۔


خیال رہے کہ کئی دہائیوں سے عیدگاہ میں جمعہ کی نماز کے بعد نوجوانوں کی طرف سے بغیر کسی تیاری یا پیشگی اطلاع کے احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ عیدگاہ مظاہرین کا گڑھ بن گئی ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق علیحدگی پسندوں کی کال پر لاکھوں لوگ عیدگاہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔

1990 کی دہائی میں اس علاقے میں محرم کے جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی تھی تاکہ مذہبی تقریبات کو شہر کے مرکز لال چوک پر ختم ہونے والے جلوسوں کو سیاسی مظاہروں میں بدلنے سے روکا جا سکے۔ 2019 میں حکومت نے سری نگر کے تمام حصوں میں محرم کے جلوسوں پر قدغن لگا دی اور عیدگاہ کی مسلسل نگرانی کی گئی۔


اگست 2019 میں جب آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر دی گئی یعنی کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا گیا، جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کی تقریباً ایک سال تک اجازت نہیں دی گئی۔ 2020 میں محرم کے جلوس میں ’آزادی‘ کے نعرے لگانے کے الزام میں 200 سے زیادہ شیعہ مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اور ایک بڑی تعداد پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا، پیلٹ گن کا استعمال کیا گیا، جس کے چھروں سے کئی افراد بینائی سے محروم ہو گئے۔

اس سال اگست میں جموں و کشمیر کے سرکردہ عالم دین اور کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کو جامع مسجد میں نماز پڑھانے سے روکنے کے لئے خانہ نظر بند کر دیا گیا۔ تاہم بعد میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے دعویٰ کیا کہ انہیں خانہ نظر بند نہیں رکھا گیا ہے۔ ’ریلیجن ان پلگڈ‘ کے مطابق جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی ’انجمن اوقاف‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 6 سالوں میں 160 سے زائد مرتبہ نماز جمعہ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔


دریں اثنا، انتظامیہ نے دو سال بعد منعقد ہونے والی امرناتھ یاترا کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے 40000 اضافی اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔ دوسری طرف کشمیری مسلمانوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور انہیں جامع مسجد میں جمع ہونے، نماز پڑھنے اور محرم کے جلوس نکالنے سے روکا جا رہا ہے۔

اس سب سے دلبرداشتہ ممتاز کشمیری شاعر ظریف احمد ظریف ’19ویں صدی میں سکھوں کے دور حکومت میں آمرانہ جبر‘ کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک اور غیر منصفانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ایک اور اسپتال بنانے کے لئے سنجیدہ ہے تو اسے بٹہ واڑہ یا زاکورہ میں فوجی چھاؤنی پر غور کرنا چاہیے، جہاں سی آر پی ایف کے پاس کافی زمین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ لوگ عیدگاہ کی تاریخی اہمیت اور اس سے لوگوں کے جذباتی وابستگی کو نہیں سمجھ پا رہے۔ یہ اقدام کشمیریوں کو بقیہ ہندوستان کے قریب نہیں لائے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔