’ہم کیوں ووٹ دیں، ہمارے لیے انتخاب کا کوئی مطلب نہیں‘، منی پور متاثرین کی حکومت کے تئیں سخت ناراضگی

’نوبی‘ کا کہنا ہے کہ حکومت عزت کے ساتھ جینے کے میرے حق کو یقینی نہیں بنا سکی اور اب وہ میرے ووٹ کے حق کو یقینی بنا رہی ہے؟ میں ایسی جگہ کے نمائندے کو ووٹ کیوں دوں جو اب میری نہیں ہے، یہ سب ڈرامہ ہے...

<div class="paragraphs"><p>منی پور تشدد کی فائل فوٹو /&nbsp; آئی اے این ایس</p></div>

منی پور تشدد کی فائل فوٹو / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

منی پور میں گیارہ ماہ قبل بھڑکی تشدد کی آگ سے ہنوز دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس تشدد کے شکار ہزاروں لوگ آج بھی ریلیف کیمپوں میں پڑے ہوئے حالات کے پرامن ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست میں لوک سبھا کے انتخابات آ چکے ہیں۔ ریاست کی دو لوک سبھا سیٹوں کے لیے دو مرحلوں میں 19 اور 26 اپریل کو انتخاباتات کے اعلان کیے گئے ہیں۔ مگر ریاست کی صورت حال اور جان و مال کی تباہی نے لوگوں کو اتنا دل گرفتہ کر دیا ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’ہم کیوں ووٹ دیں، ہمارے لیے انتخابات کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘

گیارہ ماہ قبل اپنا گھر بار گنوانے کے بعد ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہی نیبی نامی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ’’میں اس جگہ کے نمائندے کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ کیوں دوں جو جگہ اب میری نہیں ہے۔ انتخاب کا ہمارے لیے کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘ نیبی کی عمر 42 سال ہے اور وہ ایسا سوچنے والی تنہا نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ ہزاروں لوگ سوچتے ہیں جو اس شمال مشرقی ریاست کے نسلی تشدد میں اپنے گھر بار کی تباہی کے بعد ریلیف کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’انتخابات میں ووٹ دینے کے حق سے قبل زندہ رہنے کا حق ہوتا ہے اور ووٹنگ سے زیادہ امن و امان کی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘


نوبی نامی باشندہ نے پی ٹی آئی سے کہا کہ ’’حکومت عزت کے ساتھ جینے کے میرے حق کو یقینی نہیں بنا سکی اور اب وہ میرے ووٹ کے حق کو یقینی بنا رہی ہے؟ میری آنکھوں کے سامنے میرا گھر جلا دیا گیا۔ مجھے اور میرے گھر والوں کو راتوں رات وہاں سے جانا پڑا۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہاں کیا بچا ہے۔‘‘ نوبی نے مزید کہا کہ ’’میں ایسی جگہ کے نمائندے کو ووٹ کیوں دوں جو اب میری نہیں ہے۔ یہ سب ڈرامہ ہے... انتخاب ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘

الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق منی پور میں لوک سبھا کی دو سیٹوں کے لیے دو مرحلوں 19 اور 26 اپریل کو انتخابات ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں اندرون منی پور اور بیرونی منی پور کے کچھ علاقوں میں 19 اپریل کو ووٹنگ ہوگی، جبکہ بیرونی منی پور کے باقی علاقوں میں دوسرے مرحلے میں 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ حکام کے مطابق تشدد کے بعد 50,000 سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے امپھال وادی میں چار ریلیف کیمپوں کا دورہ کیا جہاں بے گھر لوگوں نے انتخابی عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔


دیما جس کی عمر 18 سال ہے، اس نے تشدد کے سائے میں اپنی اسکولی تعلیم کسی طرح مکمل کر لی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے نہیں پتہ کہ وہ آگے کیا کرے گی۔ دیما نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’’میں ایسی صورت حال میں مزید تعلیم کے بارے میں کیسے سوچ سکتی ہوں؟ میں ایسے وقت میں اپنا پہلا ووٹ کیوں ضائع کروں جب مجھے لگتا ہے کہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں… میں ووٹ نہیں دوں گی۔‘‘ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ بے گھر آبادی کو ریلیف کیمپوں سے ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔

45 سالہ کے ایچ کھمبا اپنے ریلیف کیمپ سے 120 کلومیٹر دور ہندوستان-میانمار سرحد کے قریب ’موریہہ‘ (Moreh) قصبے کے کوکی اکثریتی علاقے میں اپنا ٹرانسپورٹ کا کاروبار چلاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’’انتخاب کرانے سے پہلے موجودہ صورتحال کا کوئی حل تلاش کیا جانا چاہئے تھا۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنا ووٹ دیں گے؟ کھمبا نے کہا ’’ہم اس بارے میں ابھی آپس میں مشورہ کر رہے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ہم ریاست میں انتخاب کے وقت سے متعلق خوش نہیں ہیں۔‘‘


واضح رہے کہ منی پور میں ووٹنگ کا تناسب روایتی طور پر بہت زیادہ رہتا ہے۔ گزشتہ بار 2019 میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران ریاست میں 82 فیصد سے زیادہ ووٹنگ ہوئی تھی لیکن اس بار نسلی تشدد نے انتخابات کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بہت سے سول سوسائٹی گروپس اور متاثرہ افراد موجودہ حالات میں انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس پہاڑی ریاست میں اکثریتی میتئی برادری اور کوکی برادری کے درمیان گزشتہ سال 3 مئی سے کئی نسلی جھڑپیں ہوئی ہیں، جن کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔