الیکٹورل بانڈ: ’برسراقتدار پارٹی کو کیوں ملتا ہے سب سے زیادہ چندہ؟‘ چیف جسٹس چندرچوڑ کا سوال

الیکٹورل بانڈ کی مخالفت کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں جواب دیتے ہوئے مرکز کی طرف سے سالیسیٹر جنرل نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ نظام کو برسراقتدار پارٹی کو فائدہ دینے والا بتانا غلط ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

الیکٹورل بانڈ معاملے پر آج سپریم کورٹ میں انتہائی اہم سماعت ہوئی جس میں مرکزی حکومت نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ کا نظام سیاست میں بلیک منی کا استعمال روکنےھ کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل پارٹیوں کو بڑی مقدار میں نقد کے ذریعہ چندہ ملتا تھا، لیکن اب ایسا کر پانا مشکل ہو گیا ہے۔

الیکٹورل بانڈ کی مخالفت کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں جواب دیتے ہوئے مرکز کی طرف سے سالیسٹر جنرل نے کہا کہ اس نظام کو برسراقتدار پارٹی کو فائدہ دینے والا بتانا غلط ہے۔ 2004 سے 2014 کے درمیان جب یہ نظام نہیں تھا تب بھی برسراقتدار پارٹی کو ہی سب سے زیادہ چندہ ملتا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی پانچ ججوں کی بنچ کے سامنے جرح کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے وضاحت کی کہ ’’الیکٹورل بانڈ منصوبہ کے ذریعہ یہ یقینی کیا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو بینکنگ کے ذریعہ سے پیسہ ملے اور وہ صاف ستھرا ہو۔‘‘


تشار مہتا نے ججوں کو بتایا کہ نامعلوم ذرائع سے قومی پارٹیوں کو ہونے والی کمائی 05-2004 میں تقریباً 274.13 کروڑ روپے تھی، جبکہ 15-2014 میں یہ بڑھ کر 1130.92 کروڑ پہنچ گئی۔ یہ سیاست میں بلیک منی کی واضح مثال ہے۔ الیکٹورل بانڈ منصوبہ اس پر لگام لگاتی ہے۔ اس طرح یہ منصوبہ بلیک منی سے نمٹنے کے حکومت کی دوسری وسیع کوششوں کا ہی ایک حصہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آج ہوئی اس بحث میں عرضی دہندہ کے وکیل پرشانت بھوشن نے الزام لگایا تھا کہ الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ بی جے پی کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے تین گنا چندہ ملا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل نے کہا کہ پرانے نظام میں بھی برسراقتدار پارٹی کو ہی سب سے زیادہ چندہ ملتا تھا۔ یعنی اس بنیاد پر الیکٹورل بانڈ کو غلط ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ جو پارٹی اقتدار میں ہے اسے زیادہ چندہ ملتا ہے؟ جواب میں مہتا نے کہا کہ چندہ دینے والا ہمیشہ کسی پارٹی کی موجودہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے چندہ دیتا ہے۔


سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے والے کی جانکاری ظاہر نہ ہونے دینے کی دلیل کا بھی تشار مہتا نے جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ رازداری کا انتظام چندہ دینے والوں کے مفاد کو دیکھتے ہوئے رکھا گیا ہے۔ سیاسی پارٹی کو چندہ دینے والے بھی رازداری چاہتے ہیں، تاکہ دوسری پارٹی ان کے تئیں ناراضگی نہ رکھے۔ اس پر بنچ کے رکن جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ اس نظام میں جو رازداری ہے، وہ چنندہ ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو برسراقتدار پارٹی کو چندہ دینے والے کی جانکاری نہیں مل پاتی، لیکن حکومت پتہ کر سکتی ہے کہ اپوزیشن پارٹی کو کس نے چندہ دیا۔ مہتا نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ حکومت کو بھی اس کی جانکاری نہیں ہوتی۔ اس معاملے میں بحث کل بھی جاری رہے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔