’کیا امریکہ کے دباؤ میں پالیسی تبدیل کی گئی؟‘، کانگریس رہنما بھوپیش بگھیل نے حکومت سے کیے کئی چبھتے ہوئے سوال
بگھیل نے کہا، ’’کانگریس فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ جب بھی بحران آیا کانگریس نے سیاست کی بجائے ملک کے مفاد کو آگے رکھا۔ دہشت گردی سے لڑائی میں سیاست نہیں قوم پرستی کی ضرورت ہے‘‘

بھوپیش بگھیل (فائل)/ آئی اے این ایس
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کو لے کر ملک میں سیاست گرم ہو گئی ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کو لے کر اپوزیشن جماعتیں تمام طرح کے سوالات کر رہے ہیں۔ اب کانگریس رہنما اور چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے پوچھا ہے کہ کیا امریکہ کے دباؤ میں حکومت نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی؟
’ابے بی پی‘ کی خبر کے مطابق بھوپیش بگھیل نے کہا، ’’کانگریس فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ جب بھی بحران آیا کانگریس نے سیاست کی بجائے ملک کے مفاد کو آگے رکھا۔ 1971 میں امریکہ کے دباؤ کے باوجود اندرا گاندھی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ دہشت گردی سے لڑائی میں سیاست نہیں قوم پرستی کی ضرورت ہے۔ دشمن کے سامنے کمزوری نہیں طاقت دکھائیں۔ حکومت یہ بتائے کہ کیا امریکہ کے دباؤ میں ہم نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی؟ کانگریس نے اپنے تمام پروگرام منسوخ کیے۔ بحران کے وقت جب پورا ملک متحد تھا تب سوشل میڈیا پر بی جے پی رہنما سیاسی بیان بازی کر رہے تھے۔‘‘
کانگریس رہنما نے آگے کہا، ’’کانگریس حکومت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن ہم شفافیت کی مانگ کرتے ہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا سفارتی ناکامی نہیں ہے؟ کیا ہم نے تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرلی؟ کیا شملہ سمجھوتہ منسوخ ہوگیا؟ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے تھے، بیچ میں کشمیر کا معاملہ آگیا! پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر بتایا جائے کہ جنگ بندی کی شرطیں کیا ہیں؟ کُل جماعتی میٹنگ بلا کر شکوک و شبہات کو دور کیا جائے۔‘‘
بھوپیش بگھیل نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ترجمان کا یہ کہنا کہ بدلہ لے لیا گیا ہے، جو کئی سوال اٹھاتا ہے۔ پہلگام کے چاروں دہشت گردوں کا کیا ہوا؟ وہ پکڑے گئے یا مارے گئے؟ سلامتی میں تساہلی کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا وزیر داخلہ استعفیٰ دے رہے ہیں؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔