وقف ترمیمی بل: عمران پرتاپ گڑھی نے ایوانِ بالا میں حکمراں طبقہ کی بخیا ادھیڑ دی، 123 وقف جائیدادوں کی حقیقت بھی رکھی سامنے
کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ وقف ٹریبونل کو ایسے بتایا جاتا ہے جیسے مذہبی کھاپ پنچایت ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ وقف بورڈ خود اپنی جائیدادوں کے لیے مقدمات لڑ رہا ہے۔
ویڈیو گریب
راجیہ سبھا میں ’وقف ترمیمی بل 2024‘ پر بحث جاری ہے۔ برسراقتدار طبقہ کے لیڈران اس بل کی حمایت میں بڑی بڑی باتیں کہہ رہے ہیں، جبکہ کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے لیڈران بل میں موجود خامیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس درمیان کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے راجیہ سبھا میں اپنی بات رکھتے ہوئے برسراقتدار طبقہ کی بخیا ادھیڑ کر رکھ دی۔ انھوں نے وقف بورڈ سے متعلق بی جے پی لیڈران کے ذریعہ پھیلائی جا رہی گمراہی کی حقیقت سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ دہلی کی 123 جائیدادوں کے متلق پھیلائے جا رہے جھوٹ سے بھی پردہ ہٹایا۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے وقف بل کو آئین مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’آئین کہتا ہے ملک میں سبھی برابر ہیں۔ سبھی کو اپنے مذہبی کاموں کے لیے مندر، مسجد، گرودوارہ کی تعمیر اور رکھ رکھاؤ کا حق ہے۔ لیکن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو ہر دن کچلنے والی یہ حکومت ملک کے مسلمانوں سے نفرت میں اتنی اندھی ہو گئی ہے کہ کھلے عام پارلیمنٹ میں وزیر اقلیتی امور اور وزیر داخلہ جھوٹ بولتے ہیں، ملک کو گمراہ کرتے ہیں۔ کل سے اس بل کو ’امید‘ بتائی جا رہی ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے نہ تو یہ نئی ’امید‘ ہے اور نہ ہی ’امید کی نئی شمع‘۔ بی جے پی نے پورے ملک میں وقف کے بارے میں کئی جھوٹ پھیلائے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’وقف ٹریبونل کو ایسا بتایا جاتا ہے جیسے مذہبی کھاپ پنچایت ہو۔ اس میں بھی تو حکومت کے مقرر کردہ جج ہوتے ہیں۔ ملک کے وزیر داخلہ نے اسی پارلیمنٹ میں کہا کہ وقف ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف کوئی عدالت نہیں جا سکتا۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ (9)83 کے تحت ہائی کورٹ نہ صرف وقف ٹریبونل کے فیصلے کا تجزیہ کر سکتا ہے، بلکہ اسے بدل بھی سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وقف بورڈ خود اپنی جائیدادوں کے لیے کئی عدالتوں میں مقدمات لڑ رہا ہے۔‘‘
آج راجیہ سبھا میں اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے عمران پرتاپ گڑھی نے کچھ تاریخی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’سنہ 1947 میں دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد صاحب نے کہا تھا ’مسلمانوں کہاں جا رہے ہو... یہ ہے تمھارا ملک‘۔ اس وقت مولانا آزاد کی صدائیں سن کر لوگوں نے اپنے سر کی گٹھریاں اتار کر رکھ دی تھیں۔ آج اسی دہلی میں موجود ملک کی پارلیمنٹ میں ایک بل آیا ہے، جو ہم سے اسی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے ثبوت مانگے گا۔ انھیں سیڑھیوں کے پاس اپنی قبر میں سوئے مولانا آزاد کو پھر سے صدا دینی ہوگی کہ ’یہ قبر میری ہے، کسی حکومت کی جاگیر نہیں ہے‘۔ میں جس جگہ کھڑا ہوں، اسی پارلیمنٹ کے سامنے سڑک کے اس پار اپنی قبر میں سوئے ہوئے ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کی قبر ہے، شاید اس قبر سے بھی صدائیں آئیں کہ یہ قبر میری قبر ہے، حکومت کی جاگیر نہیں ہے۔‘‘
اپنی تقریر کے دوران عمران پرتاپ گڑھی نے سرخیوں میں رہنے والی دہلی کی 123 جائیدادوں کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’دہلی کی جن 123 جائیدادوں کا تذکرہ اقلیتی امور کے وزیر اور ایوان کے لیڈر کر رہے تھے، اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ 1911 میں جب انگریز ملک کی راجدھانی کولکاتا سے دہلی لائے، تب رائے سینا کے آس پاس کی جائیدادوں کو ایکوائر کیا گیا۔ اس وقت مسلمانوں نے اپنی عبادت گاہوں کے لیے لڑائی لڑی، اور پھر مسلم وقف ویلیڈیشن ایکٹ بنا جس میں عبادت گاہوں کو جوں کا توں چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا، اور پھر ایک نیا شہر بسایا گیا جسے لوٹینس زون کا نام دیا گیا۔ پھر آزادی سے قبل 1943 سے 1945 کے درمیان معاہدہ ہوا اور ان 123 جائیدادوں کو سنی مجلس اوقاف کے حوالے کیا گیا تاکہ اس کی دیکھ ریکھ کی جا سکے۔ مرکزی وزیر داخلہ جو 2 دنوں سے 123 جائیدادوں کی بات کر رہے ہیں، یہ وہی جائیدادیں ہیں جو سنی مجلس اوقاف کی نگرانی میں ہیں۔‘‘
دہلی کی ان 123 جائیدادوں کے بارے میں عمران پرتاپ گڑھی یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’اندرا گاندھی نے برنی کمیٹی بنائی تھی جس کی رپورٹ کی بنیاد پر حکومت نے ان جائیدادوں کو دہلی وقف بورڈ کے حوالے کر دیا۔ وی ایچ پی اس کے خلاف عدالت گیا اور 2011 تک معاملہ زیر التوا رہا۔ عدالت نے جب اس معاملے کا جلد نمٹارا کرنے کہا، تو یو پی اے حکومت نے یہ جائیدادیں دہلی وقف کو سونپ دیں، اور اسی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر داخلہ جی کانگریس کو کوس رہے ہیں۔‘‘ برسراقتدار طبقہ پر حملہ کرتے ہوئے عمران کہتے ہیں کہ ’’جس بل کو یہ مسلم مفادات میں بتا رہے ہیں، لوک سبھا میں ان کے پاس یہ بتانے کے لیے ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ہے۔ کم از کم ہماری عبادت گاہیں تو ہم سے مت چھینیے، ہماری قبروں میں تو ہمیں سکون سے سونے دیجیے۔‘‘
عمران پرتاپ گڑھی نے مسلم خواتین کے تئیں مودی حکومت کی ہمدردی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’بلقیس کے زانیوں کی رِہائی کے بعد انھیں مالا پہنانے والی پارٹی کے لیڈران یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم خواتین کو ان کا حق دلائیں گے۔ پہلے ’گجراتِ مودی‘ دیا اور اب ’سوغاتِ مودی‘ دے رہے ہیں۔ اسی ایوان میں بڑی بڑی باتیں سی اے اے سے متعلق کہی گئی تھیں۔ سچائی یہ ہے کہ 2000 لوگ بھی ہندوستان کی شہریت لینے نہیں آئے، لیکن 15 لاکھ لوگ ہندوستان کی شہریت چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے گئے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’جمہوریت ضد سے نہیں چلتی۔ ’میں آزد پہ ہوں تو اتنا خوش گماں نہ ہو/ چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں‘۔ سب کو سمجھنا پڑے گا کہ جب جنگل میں آگ لگتی ہے تو نہ برگد بچتے ہیں نہ بانس۔ جب ملک کو سوغاتِ مودی ملتا ہے تو ملک کو وقف جیسا ایکٹ ملتا ہے، الیکٹورل بانڈ ملتا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔